تحریر: محمد رضا سید
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں وزارتِ مہاجرین کے دفاتر میں ہونے والے خودکش دھماکے میں وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمان حقانی سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں، طالبان حکومت کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دھماکہ بدھ کو وزارتِ مہاجرین کے دفاتر میں ہوا جس میں خلیل حقانی سمیت اُن کے کچھ دیگر ساتھی بھی ہلاک ہوئے ہیں، رائٹرز کے مطابق خلیل الرحمان حقانی کے بھتیجے انس حقانی نے بھی اُن کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے، خلیل حقانی، حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے بھائی اور طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا تھے، حقانی نیٹ ورک کو افغان جنگ کے دوران امریکہ اور اتحادی افواج پر کئی حملوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، سنہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد مارے جانے والے یہ سب سے اہم طالبان رہنما ہیں، تاحال کسی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن شکوک داعش خرانسان کی جانب ہیں جو اس سے قبل بھی طالبان اور اِن کے حامیوں کو قتل کرنے اور دھماکے کرانے کے طالبان حکومت کے الزامات کا سامنا کرتی رہی ہے، واضح رہے کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیم داعش کو طالبان کا بڑا حریف سمجھا جاتا ہے اور یہ افغانستان میں متعدد حملوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے، داعش خرانسان کے افغانستان، ایران اور پاکستان میں محفوظ کمین گاہیں قائم ہیں، انہیں علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور امریکی سی آئی اے خطے میں پراکسی کے طور پر استعمال کرتی ہے، امریکی سی آئی اے کے معتبر ذرائع سے اخبارات کو ایسی رپورٹیں فراہم کی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ متذکرہ انٹیلی جنس ایجنسی کم وبیش 9 کروڑ ڈالر خرچ کررہی ہے، پاکستان کے سکیورٹی حکام میڈیا کو بتاتے رہے ہیں کہ ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی پاکستانی طالبان کے علاوہ داعش کی فنڈنگ کررہی ہے تاکہ وہ خطے میں ایک لڑاکا پراکسی کے ذریعے اپنے مذموم عزائم کو حاصل کرسکے۔
پاکستان اور افغانستان کی سکیورٹی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کابل میں خودکش دھماکے میں حقانی نیٹ ورک کے اہم رکن کو نشانہ بنانے کو طالبان کے اندرونی اختلافات سے بھی جوڑتے ہیں، افغان طالبان کی کابل میں قائم حکومت پر امریکہ کا دباؤ ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک سے اپنے تعلقات میں فاصلہ پیدا کرئے لیکن حقانی نیٹ ورک کی سیاسی مقبولیت اور نظامی استعداد کی وجہ سے افغان طالبان کیلئے انہیں نظرانداز کرنا یا فاصلہ پیدا کرنا ممکن نہیں ہے، یہاں پاکستانی طالبان بھی ایک اہم فکٹر ہے جو جلال الدین حقانی نیٹ ورک کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے، حقانی نیٹ ورک پاکستانی طالبان کو دہشت گردی سے دستبرادر ہونے کی ہدایت کرتے ہے جبکہ طالبان کے روحانی پیشواء ملّا ہبت اللہ اخوندزادہ پاکستانی طالبانی کی حمایت کو اپنا ایمانی فریضہ قرار دیتے ہیں، ملّا ھیبت اللہ کی خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی طالبان طرز حکومت قائم ہو اور اسی لئے وہ پاکستانی طالبان کی اس جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں، پاکستانی فورسز کیلئے پاکستانی طالبان جنھیں اب فوجی حکام کی جانب سے خوارج کا لقب دیا گیا ہے کابل میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے درد سر بننے ہوئے ہیں، پاکستانی طالبان سے مقابلے میں پاکستانی فوج کو شدید مالی اور جانی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس صورتحال لیکر ایسی پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے، جس نے ایک طرف افغان طالبان کی احسان فراموشی کو عیاں کیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی افغانستان سے ملنے والی سرحد کو مکمل طور پر غیر محفوظ بنادیا ہے، پاکستانی فوج ہر روز طالبان(خوارج) کی دہشت گردی کے نتیجے میں نقصانات اُٹھاتی رہی ہے جو عموماً میڈیا کی زینت نہیں بنائے جاتے علاوہ یہ کہ جانی نقصان ہوا ہو، پاکستانی فوج جو اس ملک کے بجٹ کا ایک بڑا حصّہ لے جاتی ہے پاکستانی طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن کیلئے اس ملک کی وفاقی حکومت سے اربوں روپے کے علیحدہ فنڈز حاصل کرتی ہے جو قومی خزانے پر اضافی بوجھ ہے، طالبان کے روحانی پیشواء ملّا ہیبت اللہ اخونذادہ کی جانب سے پاکستانی طالبان کی حمایت اور حقانی گروہ کے اس کے برخلاف رائے افغانستان کیساتھ پاکستان میں بھی دہشت گردی کو بڑھا سکتی ہے، جس کے سدباب کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پر اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
یہاں ہم پاکستان کے سرحدی علاقے پاڑا چنار میں تصادم کو فراموش نہیں کرسکتے، پاڑا چنار کے قتل عام اور راستوں پر گھات لگاکر مسافروں پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار نہ کیا جانا تاکہ انہیں کیفر کردار تک پہنچا جاسکے پاکستان کی حکومت اور فوج کی تساہلی کو ظاہر کرتی ہے جو فرقہ واریت کے پردے میں انصاف اور قانون کے نفاذ میں ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے۔