تحریر: محمد رضا سید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایران کے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ علی خامنہ ای کو ایک خط لکھ کر باہمی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی دعوت دی ہے، امریکی نیوز چینل فاکس نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کو ترجیح دیں گے، یہ انٹرویو فاکس نیوز بزنس نے جمعہ کے روز نشر کیا،اس میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میں ایران کے ساتھ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں کسی معاہدے تک پہنچنے کو ترجیح دوں گا، دوسری طرف اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مشن نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو ایک خط سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ ترین دعوے کی نفی کی ہے، جس میں نئے جوہری معاہدے پر مذاکرات کی تجویز پیش کی گئی ہے،خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور اسی ضمن میں انھوں نے جمعرات کو ایرانی قیادت کو ایک خط لکھا ہے جس میں صدر ٹرمپ کی جانب اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ ایرانی رہنما بات چیت پر راضی ہو جائیں گے، صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ میں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ مذاکرات کرنے پر تیار ہو جائیں گے کیونکہ یہ ایران کے لئے بہت بہتر ہو گا،نیویارک میں ایرانی مشن نے جمعہ کو کہا ہمیں ابھی تک ایسا خط نہیں ملا ہے، جمعہ کے روز فاکس بزنس کی ماریا بارٹیرومو کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے آیت اللہ خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے اور ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر معاہدے پر مذاکرات کی تجویز پیش کی ہےکیونکہ یہ ایران کے لئے بہت بہتر ہونے والا ہے۔
اُدھر ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ اور دھمکیوں کی پالیسی ترک کرنے تک ایران، امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات نہیں کرے گا، اس سے قبل صدر ٹرمپ نے فروری میں کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جو اسے جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکے، یاد رہے کہ 2015 میں ایران اور امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی سمیت عالمی طاقتوں نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے بدلے میں اس پر عائد بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں امریکہ یکطرفہ طور پر 2018 میں اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا جس کے بعد واشنگٹن نے ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں۔
اقوام متحدہ کے اعلیٰ جوہری اہلکار کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف امریکی پابندیاں غیر موثر ہو چکی ہیں، عالمی ادارے کی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے جمعہ کو بلومبرگ پر نشر ہونے والے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ایران پر امریکی پابندیاں کام نہیں کررہی ہیں، بالکل واضح ہے کہ ایران نے امریکی اور یورپی پابندیوں کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا ہے، ایران کا ایٹمی پروگرام خاص طور پر 2018 کے بعد سے بہت بڑھ گیا ہے، گزشتہ ماہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے سربراہ محمد اسلمی نے بھی امریکہ کی غیر قانونی اور یکطرفہ پابندیوں کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے، دشمن اس قابل نہیں ہیں کہ وہ ایران پر اقتصادی دباؤ ڈال کر اور اس کے سائنسدانوں کو قتل کرکے ایران کو پُرامن ایٹمی پروگرام سے روک سکتا ہے، یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے ماضی میں کم از کم سات ایرانی جوہری ماہرین کی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایٹمی ادارے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے امریکہ اور یورپی دباؤ میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف متعدد قراردادیں منظور کرچکی ہے حالانکہ اِن اقدامات سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر معاہدہ کرنے میں کسی قسم کی مدد نہیں ملی، یہ بات صاف ہے کہ ایران نےپابندیوں سے بچنے کیلئے راستے استوار کرلئے ہیں لہذا زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے بجائے مذاکرات کی شروعات ہی کسی معاہدے پر پہنچنے کا واحد راستہ ہے، صدر ٹرمپ نے مذاکرات کی پیشکش کرنے کے ساتھ ساتھ فوجی آپشن بھی اپنے جیب میں رکھنے کا اشارہ کرتے رہے ہیں اور اس مبینہ خط میں بھی بین السطور اس طرف اشارہ کیا ہے، صدر ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں شہید سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر ایران نے عراق میں موجودہ الاسد فوجی اڈے پر حملہ کرکے اُسے ناقابل استعمال بنادیا تھا جبکہ درجنوں امریکی فوجیوں کو بیماریوں سے دوچار ہونا پڑا تھا جو ہفتوں ایسے بنکرز میں رہے جو ایمرجنسی کی صورت میں امریکی فوجیوں کو پناہ لینے کیلئے تیار کئے گئے تھے، ایران کے خلاف امریکہ کا فوجی آپشن کی طرف جانا خطرناک نہیں تباہ کُن ہوگا، ایرانی میزائلز قطر، بحرین، امارات اور سعودی عرب میں امریکی فوجی اڈوں کو بآسانی نشانہ بناسکتے ہیں اور یمن امریکی بحری جہازوں کیلئے جہنم کی آگ بن جائے گا، ٹرمپ جب بھی فوجی آپش کی بات کرتے ہیں تو اُن کی باڈی لینگویچ اُن کے منہ سے نکلنے والے الفاظوں کا ساتھ نہیں دیتی وہ ڈرے ہوئے لگتے ہیں۔
دنیا کو معلوم ہے کہ امریکہ ایران سے بلواسطہ طور پر مذاکرات میں مشغول ہے اور لگتا ہے کہ بات چیت اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ صدر ٹرمپ کو خط لکھنے یا خط لکھنے کا بیان دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے، ایران کے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ نے ایٹم بم بنانے کے خلاف فتویٰ دے رکھا ہے مگر ایران میں ایک بااثر سیاسی گروہ ایسا بھی ہے جو انہیں اس فتوے کو واپس لینے پر اصرار کررہا ہے، ایران نے ابھی تک اپنے ایٹمی پروگرام سے متعلق مذاکرات میں اسرائیل کے ایٹمی پروگرام اور مبینہ طور پر ایٹمی ہتھیار رکھنے کا سوال نہیں اُٹھایا ہے لیکن یہ جائز بات ہوگی کہ اسرائیل کے پوشیدہ ایٹمی پروگرام کو بھی زیر بحث لایا جائے کیونکہ مشرق وسطیٰ کو سب سے زیادہ خطرہ اسرائیل کے مبینہ ایٹمی ہتھیاروں سے ہوسکتا ہے جس نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے۔