اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو منظور کی جانے والی 26 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی نے پاکستان تحریک انصاف اور سنی تحریک کے بائیکاٹ کے باوجود سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جناب منصور علی شاہ اور دوسرے نمبر پر سینئر جج منیب اختر کو نظرانداز کرتے ہوئے تیسرے نمبر پر فائز جج یحیٰ آفریدی کو ملک کا چیف جسٹس نامزد کیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کے فیصلے میں سپریم کورٹ طے کرچکی ہے کہ سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوگا، باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج کے چند جنرل صاحبان کی حکمت عملی کے تھٹ 26 آئینی ترمیم پاس کرائی گئی اور جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکا گیا ہے کیونکہ فوج کے بعض جنرلز سمجھتے تھے کہ وہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا راستہ روک سکتے ہیں، پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کا نام بطور چیف جسٹس آف پاکستان وزیراعظم شہباز شریف کو ارسال کر دیا ہے، واضح رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے۔
پاکستان کے نامور قانون دانوں کا کہنا ہے کہ فوجی جنرلز اور حکومت کا یہ اقدام پاکستان کے نظام انصاف پر شب خون مارنے کے مترادف ہے، 26 آئینی ترمیم کے نتیجے میں عام انسان کو اپنے حقوق سے دستبردار کرادیا گیا ہے اور عدالتیں عوام کے حقوق کی حفاطت کرنے ست قاصر رہیں گی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھے، پارلیمانی کمیٹی کے مجموعی طور پر 12 میں سے 9 ارکان اجلاس میں شریک رہے جب کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے کسی رکن نے کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔