تحریر : محمد رضا سید
ایران کے نائب وزیر خارجہ علی باقری نے خبردار کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسرائیل کی جانب سے کسی بھی نئی غلطی کا سیکنڈوں میں جواب دیا جائیگا، جو بھیانک ہونے کیساتھ ساتھ اسرائیل کی سلامتی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہوگا، واضح رہے کہ ایران نے اسرائیلی استکباریت اور خوف کا بُت توڑ دیا ہے، اسرائیل اس وقت پانی سے نکالی گئی مچھلی کی طرح تڑپ رہا ہے، اسرائیلی قیادت اور عوام دونوں تقسیم کا شکار ہیں، اسرائیل کی معتدل مزاج یہودی قوتیں ایران کے حملے کے بعد معاملہ برابر ہونے کی بنیاد پر ایران کے خلاف مزید کارروائی نہ کرنے پر متفق ہے مگر انتہا پسند یہودی جنکی اکثریت مسلمہ حقیقت رکھتی ہے وہ اس سوچ کے خلاف ہے، ایران نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب نہایت ہلکے وار ہیڈز استعمال کئے تھے جبکہ جدید ڈرونز اور میزائلز کو استعمال ہی نہیں کیا گیا تھا تاکہ خطے میں کشیدگی نہ بڑھائی جائے، ایران کی قیادت کے بیانات کے مضمرات کا گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی ترجیحات امن کی ہیں، تہران غزہ میں جنگ بندی کو پہلے دن سے سپورٹ کررہا ہے مگر اسرائیل کی یہ خواہش کہ فلسطینی غزہ سے دستبردار ہوجائیں اور تل ابیب حماس کے خلاف اپنے مذموم عزائم کو جو شدید اور وحشیانہ بمباری کے علاوہ زمینی کارروائی کے ذریعے حاصل نہیں کرسکا ہے اور چاہتا ہے کہ حماس اسرائیلی شرائط پر جنگ بندی کو منظور کرکے اپنے ہاتھ پاؤں کٹوالے تو ایسا نہیں ہونے والا،معاہدات اور جنگ بندی پر عمل کرنے کے حوالے سے غاصب اسرائیل کی تاریخ اچھی نہیں ہے، اسرائیل اور اس کے اتحادی میڈرڈ، اوسلو اور کیمپ ڈیوڈ میں جنگ بندی کے معاہدات کر چکے ہیں اور ایک بھی معاہدے پر عمل نہ کرنا اسرائیلی تاریخ کا لاحقہ ہے، اِن معاہدات کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ایل او نے تو اسرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد آزادی ترک کردی مگر اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو مقبوضہ علاقے نہ صرف سپرد نہیں کئے بلکہ یہاں بڑی تیزی کیساتھ یہودی آبادکاری شروع کردی، امریکہ اور یورپی ممالک نے بظاہر اسرائیل کے اس عمل کی مخالفت ضرور کی مگر یہ ممالک اسرائیل کو اُن معاہدات پر عمل نہیں کراسکے جنکے وہ ضمانت کنندہ تھے۔
ایرانی نائب وزیر خارجہ علی باقری کنی نے پیر کو ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف کسی بھی غلطی کی تکرار کی تو تل ابیب کو سخت اور فوری جواب کی توقع رکھنی چاہیئے، اس بار اسرائیلی جان لین کہ انہیں 12 دن کی مہلت نہیں دی جائے گی، ایران سے موصولہ رپورٹوں میں کہا جارہا ہے ایران کی اعلیٰ ترین مذہنی اور سیاسی قیادت نے اسرائیل کی کسی بھی غلطی کا فوری جواب دینے کا اختیار فوجی قیادت کو منتقل کردیا ہے اور اس بار ایران کی جانب سے ہلکے ہتھیار نہیں بلکہ ٹیکٹیکل ہتھیاروں کا استعمال ہوگا ممکن ہے کہ اس سے اسرائیل کا وجود ہی خطرے میں پڑجائے، اسرائیل کی سیاسی قیادت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اُسے غداروں سے نہیں اسلام کے علمبرداروں سے واسطہ پڑا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اُن شخصیات کی پیروی کررہے ہیں جنھوں نے خیبر سے یہودیوں کا نکالا تھا، اُن شہنشاہوں اور بادشاہوں کو اہمیت نہیں دیتے جو یہودیوں کو اپنا سرپرست سمجھتے ہیں، اس مقام پر غور و فکر کیلئے اردن کے بادشاہ کی غداری کو زیر بحث لاتے ہیں، اردن کے شاہی خاندان کو اسلام مسلمانوں اور مظلوم قتل کئے جانے والے فلسطینیوں کے بجائے اپنی بادشاہت، دولت اور عیاش طبعیت کے لوازم کی زیادہ فکر ہے، شاہ اردن اپنے آپ کو ہاشمی کہتا ہے ممکن ہو اس میں ہاشمی خون ہو اسکی تحقیق موجودہ بائیو سائنس سے کرائی جا سکتی ہے مگر قرآن پاک میں موجود سورہ لہب خاندانی نسبت کی بنیاد پر ذاتی خیانت کاری اور غداری کو نظرانداز کرنے سے روکتی ہے، شاہ اردن کو ابو لہب کی طرح کے برتاؤ کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا، یہ قدرت کا واضح اُصول ہے۔
ایران کے اسرائیل پر حملے کے نکتی چینوں کو یہ بات سمجھنا چاہیئے کہ تہران نے اسرائیل کے خوف کے بُت کو توڑنے کا آغاز کردیا ہے اب سعودی عرب، پاکستان، ملائشیا، ترکیہ اور آذربائیجان کو بھی مسلم حمیت اور برادری کو پیش نظر رکھ کر جرات کرنی ہوگی کہ وہ فلسطینیوں کا خون بہانے والے ہاتھ کو طاقت سے روکیں، یہاں ہمیں عراق، قطر، یمن، لبنان، عمان اور کویت کی غیرتمندی سے سرشار حکومت کی تعریف کرنی چاہیئےکہ جنھوں نے ایران کی مختلف طریقوں سے پشتیبانی کی ہے جبکہ امریکہ اور یورپی ملکوں نے جی 7 ملکوں کا اجلاس بلاکر اسرائیل کی جو مغربی ایشیائی خطے میں امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے حوصلہ افرائی کی ہے، کیا مغرب کے انصاف کرنے کے اس طریقہ کو کوئی بھی ذی عقل انسان درست نہیں کہہ سکتا ہے، مغرب کی اسی استکباری سوچ نے دنیا کو تقسیم کیا جس سے نفرتوں نے جنم لیا ہے، مغربی استکبار اچھی طرح جانتی ہے کہ مسلم عوام کیوں مغرب سے محاذ آرائی سے سرشار ہیں، اس حقیقت سے ہرگز انکار ممکن نہیں ہے، مغربی ممالک مسلمانوں کے درپے ہیں، مسلم معاشروں میں مذموم مداخلتوں کے ذریعے مسلم اُمہ کو پاسماندہ رکھنے سوچی سمجھی حکمت عملی اپنائی گئی ہے، مسلمانوں کے اجتماعی وسائل کو چند بادشاہوں کو اقتدار میں لاکر روٹا گیا ہے اور اسرائیل کو خوف کا بُت بناکر مشرق وسطیٰ میں بیٹھایا گیا تاکہ کسی کی مجال نہ ہو کہ وہ لٹروں کا ہاتھ کاٹ سکے۔
یکم اپریل کو اسرائیلی حکومت نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے سفارتی احاطے پر دہشت گرد حملہ کیا تو ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مسلم ملکوں کو ہنگامی اجلاس بلاتے اور ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے یہ اسرائیل اور اُس کے مربیوں کیلئے واضح پیغام ہوتا کہ غلطی ہوئی ہے مگر ایسا نہیں ہوا اور جب ایران نے سلامتی کونسل میں شکایت ڈالی تو وہاں بھی دادرسی کا انتظام نہیں ہوسکا لہذا ایران حق بجانب تھا کہ وہ اسرائیل کو جواب دے، اِن سب ذیادتیوں کے باوجود ایران نے اسرائیل کو ہلکا طمانچہ مارا ہے، اب پلوں سے پانی گزر چکا ہے، ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے پیر کے روز اسرائیل پر زور دیا کہ وہ کوئی جوابی اقدام نہ کرے کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ میں تناؤ میں اضافہ ہو گا، انہوں نے کہا کہ دو روز قبل ایران نے اسرائیل پر ڈرونز اور میزائلوں سے جو بڑا حملہ کیا تھا وہ جائز تھا، انور ابراہیم کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کے بعد ایران کی جانب سے ڈرونز اور میزائل بھیجنا ایک جائز عمل تھا، ملائشیا نے حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے، دنیا کو اسی طرح ردعمل ظاہر کرنا ہوگا تب ہی اسرائیل کی ناک میں نکیل ڈالی جاسکتی ہے، جس کے بعد ہی اسرائیل اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے قابل ہوگا، اسرائیل کی حکومت نے تسلیم کرلیا ہے کہ ایران کا جوابی آپریشن ٹرو پرومیس کے نتیجے میں اسرائیلی فوجی اڈوں کو نقصان پہنچایا ہے، اسرائیل کی سیاسی اور فوجی قیادت کو یہ جان لینا چاہیئے کہ اگر ایرانی قونصل خانے کے بارے میں ان کی غلطی اس طرح کے منہ توڑ جواب کا باعث بنتی ہے تو پھر ایرانی سرزمین کے خلاف ان کے ممکنہ مذموم عزائم کا کس طرح کا جواب ہوگا پھر ایک بڑی جنگ کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔