ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوگان نے شام سے تعلقات کو بڑھانے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنے شامی ہم منصب بشار الاسد کو ترکیہ کے دورے کی دعوت دے سکتے ہیں، ترکیہ کے شام کیساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے صدر اردوگان کا اعلان اسرائیل اور اُس کے حامیوں کیلئے دھچکا ہے اور یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ترکیہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد اسرائیل سے اپنے تعلقات کو پیچھے کی طرف بڑھا رہی ہے، یاد رہے 2011ء میں موساد نے ایک سازش کے ذریعے شام میں دہشت گردوں کو جمع کیا اور دمشق حکومت کے خلاف مسلح حملے شروع کردیئے، ترکیہ اُس وقت اسرائیلی سازش کا حصّہ بن کر دمشق حکومت کے خلاف سرگرم ہوگیا جبکہ انقرہ نے ترک شام سرحدی علاقوں کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل کردیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں شامی دربدر ہوگئے اور ساتھ ہی ہزاروں دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے اس دوران شام کے بڑے شہروں کو غزہ کی طرح کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا اور مغربی فورسز نے شام میں اپنے فوجی اڈے بنالئے، اب بھی امریکہ نے شام میں فوجی اڈہ قائم کررکھا ہے، جہاں محدود پیمانے میں امریکی فوج بھی موجود ہے، انقرہ کا یہ اقدام 2011 کے بعد ترکیہ اور شام کے درمیان تعلقات کے بحالی کی طرف بڑی پیش رفت ہو گی، ترکیہ کے صدر اردوگان نے برلن سے انقرہ آتے ہوئے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہم کسی بھی وقت شامی صدر کو دورے کی دعوت دے سکتے ہیں۔
ترکیہ نے 2011 میں بشار الاسد کی حکومت گرانے کی کوشش کی تھی، تاہم شام کی حکومت نے روس اور ایران کی مدد سے دہشت گردی پر قابو پالیا ہے، جس کے بعد انقرہ نے شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوشش شروع کردیں تھیں، انقرہ کی کوشش ہے کہ ترکیہ کی جانب دہشت گردی کی راہداری کو کھلنے سے روکے، اس لئے ایردوان نے کچھ عرصے سے بشارالاسد کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے پیشرفت کر رہے ہیں، اردوگان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا انہیں روسی صدر پیوٹن سمیت کئی دوسرے رہنماؤں نے مشورہ دیا ہے کہ صدر بشار الاسد کے ساتھ ملاقات کروں، اب ہم اس مرحلے کے قریب پہنچ گئے ہیں کہ صدر اسد کو دعوت دیں اور اسی جذبے کا اظہار کریں جس کا صدر بشار الاسد نے کیا ہے، ترکیہ کے صدر کے یہ خیالات اس وقت سامنے آئے ہیں جب محض پچھلے ہفتے قبل ترکیہ میں شام میں خلفشار پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں اور ترک شہریوں نے شامی پناہ گزینوں کی ملکیتی عمارتوں اور املاک پر حملے کیے ہیں، خیال رہے ترکیہ میں 32 لاکھ کے قریب شام کے کرد شہری موجود ہیں، ان کے خلاف حالیہ برسوں کے دوران کئی بار پُر تشدد واقعات ہو چکے ہیں، ترکیہ کے سیاستدان بھی ان شامی پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے لئے عوام سے وعدے کرتے رہتے ہیں، جیسا کہ پچھلے الیکشن کے دوران بھی سیاستدانوں نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کام کریں گے۔