تحریر : محمد رضا سید
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے بدھ کے روز تل ابیب کے دورے کے دوران کہا کہ اسرائیل نے ایران کو میزائل اور ڈرون حملوں کا جواب دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جوکہ علاقائی کشیدگی میں اضافے کا سبب ہوگا، عالمی طاقتیں ہفتے کی رات ایران کے حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے وسیع پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کوشاں ہیں، ڈیوڈ کیمرون مغربی ملکوں کی طرف سے اسرائیلی قیادت کو سمجھانے تل ابیب پہنچیں ہیں، ڈیوڈ کیمرون انجانے خوف کو لیکر اسرائیلی قیادت سے ملے، مغربی ملکوں نے ایران اسرائیل قضیے میں دمشق کے ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی ائیرفورس کے حملے کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیل پر ایران کے ڈرونز اور میزائلز حملوں کی مذمت کررہے ہیں، ڈیوڈکیمرون نے انتہائی معذرت خواہانہ چہرے کیساتھ مغرب کی نمائندگی کرنے تل ابیب پہنچے اور اُن مقامات کا دورہ کیا جو ایرانی حملے سے متاثر ہوئے تھے، تصویروں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اُن کا چہرہ لٹکا ہوا تھا، ایک طرف اسرائیل کہتا ہے کہ 99 اشاریہ 99 فیصد داغے گئے ڈرونز اور میزائل کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کردیئے اور دوسری طرف ایرانی حملے سے ہونے والے نقصانات کا ماتم بھی کررہا ہے، دنیا اسرائیل اور اُس کے اتحادیوں کی کس بات پر یقین کرئے، ڈیوڈ کیمرون تل ابیب کو یقین دلایا ہے کہ وہ ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا پختہ ارادہ کئے ہوئے ہے، دنیا کو امریکہ اور یورپی ممالک یہ پوژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ بہت برا ہوا ہے حالانکہ امریکہ، برطانیہ فرانس اور اردان نے تسلیم کرلیا ہے کہ اُنھوں نے اسرائیل کے دفاع میں ایرانی حملے کے دوران میزائلز اور ڈرونز گرائے ہیں، مغربی ملکوں کی سیاست کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ایک شریر بچہ ہے جو عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مغربی ممالک اُس کے غصّے کو کم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یہ دکھاوا اس لئے ہے مغربی ممالک جانتے ہیں کہ اسرائیل مغرب ی کھلی ہوئی حمایت اور سرپرستی کے باوجود ریت کی دیوار ہے اور اسے ایران کے حالیہ حملے نے بے نقاب کردیا ہے۔
ایران کئی دہائیوں سے اپنی پراکسیز کے ذریعے فلسطینیوں کا دفاع کرتا رہا ہے اور عربوں کو مقبوضہ علاقے واگراز کرانے میں مدد کی ہے، جنوبی لبنان کے عرب علاقے کو اسرائیل سے بزور طاقت چھینے میں ایران واحد ملک تھا جو حزب اللہ کیساتھ کھڑا تھا، لیکن یہ پہلی بار تھا جب ایران نے 13 اپریل کو رات گئے اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا، ایران نے یہ حملے یکم اپریل کو دمشق میں اپنے سفارت خانے کے احاطے پر اسرائیلی فضائی حملے کے جواب میں کئے تھے، دمشق کے سفارتخانے کے احاطے پر اسرائیلی فضائیہ کے میزائل حملے میں دو ایرانی جنرل اور کئی دیگر ایرانی افسران شہید ہوئے تھے، اسرائیل اور اُسکے اتحادی اس بات پر سیخ پا ہیں کہ ایران کے ڈرونز اور میزائل اسرائیل کے کئی پرتوں پر مشتمل دفاعی حصار کو چیرتے ہوئے ہدف تک کیسے پہنچے اور اس صورتحال کو اسرائیلی شہریوں نے سب سے زیادہ محسوس کیا، اسرائیلی شہری بجا طور پر اپنی حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ سکیورتٰ کی یہ صورتحال ہے تو کیا وہ اپنے آبائی وطن واپس ہو جائیں، دوسری طرف اسرائیل اور فلسطینی مزاحمت پسند جماعت حماس کے درمیان جنگ کا دورانیہ چھ ماہ سے زیادہ ہوچکا ہے، اسرائیل کا معاشی اور سیاسی نقصان اپنی جگہ اس جنگ نے عرب نوجوانوں کو ہمت دی ہے کہ اپنی حکومتوں پر دباؤ پیدا کریں جسکا حالیہ دنوں میں اردن کے بادشاہ کے خلاف ایکس پر آنے والا ردعمل تھا، عرب نوجوانوں نے اسی صورتحال پیدا کردی ہے مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے اور اہم عرب ملک نے سنجیدہ سفارت کاری شروع کی ہے، سعودی عرب سمیت بااثر مسلم ممالک چاہتے ہیں کہ اسرائیل جوابی ردعمل دینے سے گریز کرئے کیونکہ ایران واضح کرچکا ہے کہ اسرائیل کی براہ راست یا بلواسطہ فوجی کارروائی کا سخت ترین اور 13 اپریل کے حملے سے بڑا جواب دیا جائیگا، اس ہفتے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے، بعض سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ شہزادہ فرحان نے پاکستان کو اپنی قیادت کا اہم پیغام پہنچایا ہے، اِن قیاس آرائیوں میں برا دم ہے کہ پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگ کا دائرہ بڑھانے سے روکنے کیلئے تنبیہ کرئے، خیال رہے پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے جس کے پاس تل ابیب کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی طاقت ہے، پاکستان نے ابھی تک فلسطینیوں کی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نسل کشی پر بڑے تحمل سے کام لیا ہے اور صرف سفارتی اور سیاسی سطح پر اسرائیل کے خلاف آواز بلند کی ہے، پاکستان کی حکومت اور عوام دونوں اسرائیل کی فلسطینی عوام کے خلاف وحشیانہ جنگ کے خلاف ہیں، پاکستان کے معاشی مسائل اسلام آباد کے کردار کو محدود رکھے ہوئے ہیں، اگر سعودی عرب کی جانب سے معاشی مشکلات کے حل کیلئے مثبت اشارے ملے تو پاکستان ضرور عالم اسلام کی سربلندی کیلئے کردار ادا کرئے گا۔
جس طرح جون 1967 کو دوسری عرب اسرائیل جنگ میں معمولی کردار ادا کیا تھا، یہ جنگ صرف چھ روز تک جاری رہی تھی اور مصر، اردن، شام اور عراق نے اس جنگ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھایا، اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے جس میں مشرقی بیت المقدس کا علاقہ بھی شامل تھا اس پر قبضہ کر لیا، اسرائیل نے 1948 میں جتنے علاقے پر قبضہ کیا تھا 1967 کی جنگ میں تل ابیب نے اس سے چار گنا زیادہ علاقہ ہتھیا لئے، عرب دنیا میں اس واقعے کو آج بھی شدید دھچکہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس جنگ کے بعد عرب اسرائیل تنازع مزید گہرا ہو گیا، اس جنگ میں اسرائیل کی فتح کی اہم وجہ امریکہ ہتھیار تھے جبکہ عربوں کے پاس مقابلے کے لئے روسی اسلحہ تو موجود تھا مگر فوجی تربیت اور صلاحیت میں اسرائیل سے مقابلہ نہیں کرسکے تاہم اس جنگ میں پاکستان ایئر فورس کے چند پائلٹوں نے بہادری کے وہ جوہر دکھائے جس کا اعتراف اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے موساد کی وہ خفیہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی کی فضائیہ کم وسائل کے باوجود بہترین تربیت اور مذہبی جذبے کی وجہ سے اسرائیل پر دہائیوں تک فضائی برتری رکھ سکے گی، یاد رہے کہ جب اسرائیل نے اردن کے سب سے اہم ہوائی اڈے مفرق پر حملہ کیا تھا تو پاکستان کے پائیلٹس تھے جنھوں نے ایک اسرائیلی جہاز مار گرایا اور دوسرے سے بھی دھواں اٹھتا ہوا دیکھا گیا جو اسرائیلی حدود میں جاگرا، دو دن بعد اسرائیل نے عراق کے ایک ہوائی اڈے پر حملہ کیا تو یہاں بھی ان کا مقابلہ پاکستانی پائلٹس سے ہوا جنہوں نے دو اسرائیلی جہاز مار گرائے۔
ایران واضح کرچکا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی تو وہ جواب الجواب کیلئے تیار ہے اور اس مرتبہ سخت سزا دی جائے گی، اُدھر ایران کو جواب دینے کیلئے اسرائیلی جنگی کابینہ 3 اجلاس بغیر فیصلے کئے ختم کرچکی ہے، یہودی آبادکار جو پہلے ہی حماس اور حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے ملک چھوڑ رہے ہیں اور بتدریج معاشی مندی انہیں اسرائیل سے جانے پر مجبور کررہی ہےاور اب ایران نے جس طرح اسرائیل کے اندر گُھس کر حملے کرکے فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے اُس نے اسرائیلی عوام کو بے چین کردیا جبکہ ایران اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے، برطانوی وزیر خارجہ کیمرون نے اسرائیل کا دورہ شروع کرنے سے قبل صحافیوں کو بتایا ہمیں امید ہے کہ اسرائیل حکومت اپنے جوابی اقدام میں کچھ ایسا کرئے گی جو زیادہ نقصان کا باعث نہ بننے، واشنگٹن اور دیگر مغربی حکومتوں کو امید ہے کہ ایران کے خلاف نئی اقتصادی پابندیاں اسرائیل کو اس کی جوابی کارروائی کے دائرہ کار کو محدود کرنے پر آمادہ کرنے میں مدد کریں گی، کیمرون نے کہا کہ برطانیہ ایران کے خلاف سات بڑی جمہوریتوں کے گروپ کی طرف سے مربوط پابندیاں لگانے پر کام کررہا ہے، اگر اسرائیلی قیادت نے ایرانی حملے کا جواب نہیں دیا تو تہران کے ڈرون اور میزائل پروگرامز پر پابندیا لگادی جائیں گی، امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن آنے والے دنوں میں ایران کے میزائل اور ڈرون پروگرام کو محدود کرنے کیلئے نئی پابندیاں عائد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور اسے توقع ہے کہ اس کے اتحادی بھی اس کی پیروی کریں گے۔