تحریر : محمد رضا سید
اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے پانچ ماہ کے دوران امریکہ نے تل ابیب کی بھرپور فوجی اور معاشی مدد کی ہے، اب امریکی ڈیموکریٹس نے صدر جوبائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے لئے امریکی فوجی امداد پر نظر ثانی کی جائے، امریکی ڈیمو کریٹس کی جانب سے طاقتور آواز بلند کئے جانے پر اسرائیل امریکہ تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر جوبائیڈن صدارتی انتخابات کے سال میں ڈیموکریٹس قانون سازوں کے مطالبے کو نظرانداز نہیں کرسکیں گے، خارجہ امور کمیٹی کے رکن سینیٹر کرس وان ہولین نے کہا ہے کہ امریکی ہتھیاروں کی اسرائیل کو فراہمی کیلئے بین الاقوامی وقانین پر عمل درآمد کرانے کیلئے وہ تمام امکانات بروئے کار لائیں جو ہمارے لئے میسر ہیں اور یہ امریکہ کیلئے ضروری بھی ہے، جوبائیڈن انتظامیہ اسرائیل کو فوجی امداد دے رہی ہے دیتی رہے گی سینیٹر نے کہا میں نہیں جانتا کہ مزید کتنے فلسطینی بچوں کو بھوک کا سامنا کرنا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہم اسرائیل پر اپنا اثر رسوخ بروئے کار لائیں اور وہ کچھ کریں جو کیا جانا چاہیئے، ڈیمو کریٹس کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کو اس بات سے مشروط کیا جائے کہ یہ سویلینز کے خلاف استعمال نہ ہو، امریکی پریس سے بات کرتے ہوئے سینیٹر ہولین نے کہا قانون سازوں نے جوبائیڈن انتظامیہ سے کہا ہے کہ اسرائیل کے لئے فوجی امداد کو اس وقت تک روک دیا جائے جب تک نیتن یاہو کی حکومت غزہ کے لئے امدادی سامان کی ترسیل میں رکاوٹیں ختم نہیں کرتی ہے۔
امریکی سینٹر کی طرف سے اس اہم بیان کے بارے میں وائٹ ہاوس نے فوری طور پر کسی ردعمل کے اظہار سے گریز کیا ہے جبکہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے رد عمل مانگا بھی گیا تھا، واضح رہے امریکہ کی موجودہ انتظامیہ فی الحال اسرائیل کے لئے فوجی امداد کو مشروط کرنے سے انکاری ہے، اس موقع پر ایک اور امریکی سینیٹر پیٹے والش نے کہا کتنے مزید گھر، دکانیں، چائلڈ کئیر سنٹرز، اسکول اور ہسپتال تباہ ہونے کے بعد وزیر اعظم نیتن یاہو سے کہا جائے گا کہ بہت ہوگیا، اب اسے بند کیا جائے، والش نے منگل کے روز یہ بات امریکی سینیٹ میں اپنی تقریر کے دوران کہی ہے، ایک طرف امریکی قانون ساز صدر جو بائیڈن پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کو جنگ بندی اور قحط سے دوچار فلسطینیوں کیلئے غذائی امداد کا راستہ کھولنے سے مشروط کریں تو دوسر طرف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی ہے کہ امریکی انتظامیہ نے حال ہی میں خاموشی کیساتھ اسرائیل کیلئے فوجی امداد کی منظوری دی اور منظور کردہ امداد سے زیادہ ہتھیار اسرائیل پہنچائے گئے، واشگنٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کو روایتی طور پر سالانہ امداد کے علاوہ غزہ پر جارحیت کے دوران سو مرتبہ اضافی فوجی امداد فراہم کی ہے، یہ بات امریکی حکام نے کانگریس کے اراکین کو ایک حالیہ اِن کیمرہ بریفنگ میں بتائی ہے، امریکی رائے عامہ اپنی حکومت کی جانب سے اسرائیل کی غیرضروری حمایت کے خلاف دباؤ قائم کئے ہوئے ہیں، جس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں مثلاً واشنگٹن کو دکھاوے کیلئے ہی صحیح مجبور ہونا پڑا کہ وہ اسرائیل کو امریکی قومی سلامتی میمورنڈم سے آگاہ کرئے جو امریکی ہتھیار حاصل کرنے والے ممالک کو بین الاقوامی قوانین پر قائم رہنے کا کہتا ہے، اکتوبر 7 سے قبل امریکہ نے فوجی سازوسامان کی فراہمی کے ساتھ اسرائیل کی جنگی صلاحتوں میں اضافے کیلئے روایتی سالانہ 3 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی تھی، جو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران دی گئی امریکی فوجی امداد کے علاوہ ہے۔
امریکہ کے علاوہ اس کے اتحادی اور اسرائیل نواز ممالک برطانیہ، کینیڈا، فرانس اور اٹلی کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی فوجی مدد علیحدہ ہے جبکہ حماس کی فوجی مدد اس وقت صفر ہے کیونکہ سخت ناکہ بندی میں اس کا امکان موجود نہیں ہے، اسرائیل کے وحشیانہ بمباری اور واضح جنگی جرائم کو دیکھتے ہوئے مغربی دنیا کے قانون ساز اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی متحرک قوتیں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کیلئے عملی اقدامات پر مائل ہوئی ہیں، کینیڈا جو کھکم کھلا اور خفیہ طور پر اسرائیل کو بھاری مقدار میں ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کررہا ہے اس ملک کے انسانی حقوق کے وکلاء نے اسرائیل کو فوجی سازوسامان کی برآمدات پر وزیر خارجہ میلانیا جولی پر مقدمہ دائر کرنیکا اعلان کیا ہے، کینیڈا کے انسانی حقوق کے وکلاء کا ماننا ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت کینیڈا کی حکومت نے اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے، منگل 6 مارچ کو دائر کیے گئے مقدمے میں ایک وفاقی عدالت سے کہا گیا ہے کہ وہ کینیڈا کی حکومت کو اسرائیل کے لئے تیار کردہ فوجی سامان اور ٹیکنالوجی کے لئے برآمدی اجازت نامے جاری کرنے سے روکنے کا حکم دے، کیس میں شامل گروپوں میں سے ایک کینیڈین لائرز فار انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے بورڈ ممبر ہینری آف نے کہا کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی ایسے حالات میں ممکن نہیں جب اسرائیل کو فراہم کردہ ہتھیار سویلین کے خلاف استعمال ہورہے ہوں، اس کے علاوہ اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں جنگی مقدمہ کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے اس صورتحال میں کینیڈا کی حکومت کس طرح اپنے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کرسکتی ہے، لائرز فار انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ کینیڈین حکومت کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا مقصد بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی نشاندہی بھی کرنا ہے۔
واضح رہے غزہ میں 23 لاکھ شہری بے گھر جبکہ شہید ہونے والوں کی تعداد 30717 ہو چکی ہے، اِن میں بچوں اور خواتین کی تعداد 90 فیصد ہے، غزہ کی پٹی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہے، اقوام متحدہ بے گھر فلسطینیوں کو اب قحط کی زد میں قرار دیتے ہیں اس کے باوجود امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی روکنے کی سلامتی کونسل کی اب تک تین قرار دادوں کو ویٹو کر دیا ہے، بدھ کے روز امریکی ایوان نمائندگان کے درجنوں ڈیموکریٹس اراکین نے امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا ہے جس میں غزہ کے شہریوں کو درپیش مشکلات کے بارے میں خطرات سے آگاہ کیا ہے اور خط میں امریکی صدر کی توجہ غزہ میں انسانی المیہ رونما ہونے کی طرف مبزول کرائی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اسلحہ اور فوجی امداد روکنے سے تباہ شدہ غزہ کے ملبے میں سے کتنے فلسطینیوں کے گھر اور بچے بچائے جا سکیں گے۔
1 تبصرہ
It is a violation of international law to supply arms to Israel, a country involved in war crimes
In which the United States, Canada and other European countries are involved
The news of Pakistan supplying arms to Israel was based on hypocrisy, but India is supplying arms and manpower to Israel