تحریر: محمد رضا سید
سینئر امریکی حکام نے لبنان میں مسلم مزاحمتی محاذ کے طاقتور گروہ حزب اللہ کے جنگجوؤں اور اسرائیل کے درمیان بڑی جنگ کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، حزب اللہ نے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اسرائیل کے زیر قبضہ مقبوضہ شمالی علاقوں پر تابڑ توڑ حملے کئے ہیں، جس نے اسرائیل کے دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کیساتھ ساتھ اسرائیل کو شدید مالی نقصان پہنچایا ہے، حزب اللہ نے حملے سات اکتوبر کے بعد غزہ پر اسرائیل جارحیت کے فوراً بعد مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں شروع کردیئے تھے، حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کو ہدف بنانے کے ایک سے زیادہ مقاصد تھے، پہلا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کی ایک قابل ذکر عسکری قوت کو شمالی مقبوضہ علاقوں کی طرف مصروف کردیا جائے تاکہ اسرائیل فقط غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر اپنی بھرپور عسکری طاقت صرف نہ کرسکے، دوسرا اہم مقصد مقبوضہ شمالی علاقوں سے یہودی آباد کاروں کو منتقل کرنے کا مالی بوجھ اسرائیل پر ڈال جائے، تیسرا اور اہم ترین مقصد حماس کی عسکری قوت اور اسٹرٹیجک اثاثوں کو بچایا جاسکے، حزب اللہ اِن تینوں مقاصد میں بڑی حد کامیاب رہی ہے، اسرائیل جنوبی لبنان میں حماس کی عسکری قیادت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکا ہے، اسی پس منظر میں امریکی اسرائیل کی متشدد یہودیوں پر مشتمل حکومت کو باور کرارہے ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی ہی اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں پر حزب اللہ کے حملے ختم کرانے کا کامیاب ترین راستہ ہے، مئی اور جون میں حزب اللہ کے تابڑ توڑ حملوں نے تل ابیب کو ہلاکر رکھ دیا ہے، اسرائیلی میڈیا کے مطابق بدھ 15 مئی 2024ء کو حزب اللہ نے دو ڈرونز طیاروں کے ذریعے روایتی حملوں سے ہٹ کر اسرائیلی فضائیہ کے ایک اڈے پر خطرناک حملہ کیا، دھماکہ خیز مواد سے لدے ڈرونز سے حملے کے نتیجے میں اسکائی ڈیو کے نام سے مشہور میزائل کا پتہ لگانے والا ایک بڑا بلمپ تباہ ہوگیا، اسرائیلی فضائیہ کا یہ اڈہ لبنان کی سرحد سے تقریباً 35 کلومیٹر (21 میل) کے فاصلے پر گولانی جنکشن کے قریب واقع ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق حزب اللہ نے پچھلے سات مہینوں میں شمالی اسرائیل پر ہزاروں ڈرون، میزائل اور راکٹ داغے ہیں، یہ حملے زیادہ تر سرحدی علاقے تک ہی محدود ہیں لیکن بدھ 15 مئی 2024ء کو سرحد سے تقریباً 15 کلومیٹر (9 میل) تک اسرائیلی اہداف پر کامیاب حملے نے حزب اللہ کی طاقت اور عسکری استعداد سے تل ابیب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے، اسکائی ڈیو ایروسٹیٹ کو طویل فاصلے سے مار کرنے والے میزائلوں، کروز میزائلوں اور ڈرونز کا پتہ لگانے کے لئے اونچائی پر تعینات کیا جاتا ہے، جسکی مالیت 230 ملین امریکی ڈالر ہے، اسرائیل نے دو سال قبل شام اور لبنان کی طرف سے بڑھتے خطرات کی بناء پر شمالی فضائی اڈے پر اس اسکائی ڈیو کو نصب کیا تھا، اس نظام کی تباہی سے اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں کو فضائی حملوں سے محفوظ رکھنا مشکل ہوگیا ہے، یہ اسرائیل کی آنکھیں تھیں جسے حزب اللہ نے پھوڑ دیا ہے، انٹیلی جنس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اندھا بنانے کی حزب اللہ کی کوششوں کا مقصد شمال میں اسرئیل کی فوجی تنصیبات پر فضائی حملوں کو ہدف تک رسید کرنا ہے تاکہ تل ابیب کی عسکری قوت کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے، دوسری طرف اسرائیل نے اپنے فضائی نگرانی کو پہنچنے والے نقصان کا روایتی انداز میں بدلہ لینے کیلئے لبنان کے آبادی والے علاقے بعلبیک پر رات کے اندھیرے میں فضائی حملے کئے جس سے انسانی جانوں اور املاک کو شدید نقصان پہنچا، بعلبیک تقریباً 100 کلومیٹر لبنانی سرحد کے اندر واقعے ہے جسے حزب اللہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، اسی دوران اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی شہر نظریت کے میئر نے مقبوضہ شمالی علاقوں پر حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے حملوں کے بابت اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ حزب اللہ کے بتدریج سنگین ہوتے ہوئے حملوں کی حقیقت کو نظرانداز نہیں کریں۔
حزب اللہ کے اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں پر گذشتہ دو ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے حملوں کے نتیجے میں تل ابیب کے تسلیم کردہ اعداد کے مطابق اسرائیل کے 14 فوجی اور 10 مددگار ہلاک ہوئے ہیں، یاد رہے اسرائیل اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد پریس سے پوشیدہ رکھتا ہے اور کوئی فوجی ذریعہ اگر ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد سے متعلق اطلاعات کو باہر نکالتا ہے تو وہ فوجی قوانین کی خلاف ورزی پر مجرم گردانہ جاتا ہے تاہم اسرائیل میں سرگرم انسانی حقوق کے گروہ نے دعویٰ کیا ہے گزشتہ دوماہ کے دوران 80 سے زائد اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حزب اللہ کے ایک روز میں فائر کئے گئے 100 سے زائد راکٹوں کے حملوں کی زد میں آکر 36 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے، حزب اللہ کے سنگین ہوتے ہوئے حملوں کی بابت اسرائیل نے شمال کی جانب وسیع تر فوجی کارروائیوں کی دھمکی دی ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپی سفارتکار تل ابیب کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ لبنان کے خلاف وسیع تر فوجی کارروائی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دے کیونکہ مزاحمتی قوتیں اسرائیل سے اسی قسم کی غلطی کرانا چاہتا ہے جو اسرائیل کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرسکتی ہے، امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین لبنان کے ساتھ اسرائیل کی شمالی سرحد پر جاری لڑائی کو ختم کرنے کے لئے سفارتی راستہ تلاش کررہے ہیں، نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ کے ساتھ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو غزہ سے جوڑ دیا ہے اور اگر ہم غزہ میں جنگ بندی کرالیتے ہیں تو یہ امکان بڑھ جائے گا کہ ہم اسرائیل کیلئے شمال میں پیدا شدہ بحران کا سفارتی حل تلاش کرلیں، دوسری طرف دوسری جانب امریکہ کے خصوصی ایلچی ایمس ہوکسٹائن اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کم کرانے کیلئے بیروت میں موجود ہیں جو حزب اللہ کیساتھ بلواسطہ رابطہ کرکے اسرائیل پر حملوں کی شدت کم کرانے چاہتے ہیں، موجودہ صورتحال میں امریکہ اور یورپ کی پریشانی واضح طور پر نظر آرہی ہے، اسرائیل مزاحمتی دائرے میں پھنس چکا ہے اور اب مزاحمتی اتحاد اسرائیل کو گردن سے پکڑنے کی تیاری کررہا ہے۔