اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، دنیا کے 140 سے زیادہ ممالک فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں، عالمی عدالتِ انصاف اسرائیل کو جنگ روکنے کا حکم دے چکی ہے جس پر وہ عمل نہیں کر رہا، اسپین نے عالمی عدالت میں یہ درخواست دائر کی ہےکہ وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کے مقدمے میں جنوبی افریقہ کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے، عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ اپنی سالانہ رپورٹ میں ان ملکوں اور گروپوں کی فہرست جاری کرے گی جو جنگ کے دوران بچوں کے خلاف جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں، اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے جمعہ کو عالمی ادارے کی اس رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا کہ اس فہرست میں اسرائیل کا نام بھی شامل ہوگا، ایک ذریعے کے مطابق جون کے آخر میں شائع ہونے والی فہرست میں حماس اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد کے نام بھی شامل ہوں گے تاکہ اسے بیلنس سمجھا جاسکے، اس فہرست میں جنگ سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
حماس اور اسلامی جہاد دونوں کو ہی امریکہ اور یورپی یونین کے بعض ممالک دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کر چکے ہیں، غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ اب نویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے، حماس کے زیرِ اتنظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک ہر 20 میں سے ایک فلسطینی ہلاک یا زخمی ہو چکا ہے اور غزہ کی پٹی کی 24 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر بے گھر ہو چکے ہیں اور وہ پناہ اور خوراک کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں جبکہ تل ابیب میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی سربراہی میں جنگی کابینہ شدید اختلافات کا شکار ہوگئی ہے، کابینہ میں شامل شدت پسند صیہونی فلسطینی مزاحمت کےہر نقطے کو مٹانے کے درپے ہیں اور اس سے قبل جنگ میں کوئی وفقہ نہیں چاہتے، اسرائیل کی جنگی کابینہ کے شدت پسند یہودیوں کے نمائندہ بینی گانٹز حماس کیساتھ مستقل جنگ بندی کے مخالف ہیں اور وہ حماس کی قید سے اسرائیلیوں کی رہائی کیلئے ہر قدم اٹھانے کی حمایت کرتا ہے، انہی شدت پسند یہودیوں کی جانب سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات سامنے آچکے ہیں، دوسری طرف چین اور روس نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے امریکی مسودے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، دونوں ممالک کے پاس سکیورٹی کونسل میں کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کا اختیار ہے، سلامتی کونسل کے واحد عرب رُکن الجیریا نے بھی کہا ہے کہ وہ فوری طور پر اس مسودے کو آگے بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہے، روس کی جانب سے دی گئی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ دوسرے مرحلے کے لئے بات چیت جاری رہنے تک پہلے مرحلے میں ہونے والی جنگ بندی برقرار رہے۔
پندرہ رکنی کونسل سے قرارداد کی منظوری کے ذریعے امریکہ اس منصوبے کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو غزہ میں آٹھ ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کی طرف اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے، اقوامِ متحدہ کے اعلی ترین سفارتی فورم سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کے پاس ہونے کے لئے اس کے حق میں کم از کم نو ووٹوں اور امریکہ، فرانس، برطانیہ، چین یا روس کی طرف سے ویٹو سے بچنے کی ضرورت ہوگی، تاہم فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی جانب سے طاقت کا بڑھتا ہوا رجحان ہمیں ناجائز شرائط پر جنگ بندی معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی جس میں فلسطینیوں کے مفادات کا خیال نہ رکھا گیا ہو، ھنیہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا اگر قابض اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے اپنی شرائط ہم پر مسلط کر سکتا ہے تو یہ اس کی بڑی بے وقوفی ہے، جنگ بندی کی کوششوں کے دوران اسرائیل کی داخلی سیاست امن کی کوششوں کو سنگین بنانے کیساتھ ساتھ جنگ کی کڑواہٹ ختم کرنے میں رکاوٹ ہے، جس کی وجہ سے تل ابیب ایسی شرائط کو مسترد کررہا ہے جو پائیدار امن کیلئے معاون ثابت پوسکتیں ہیں۔