تحریر: محمد رضا سید
جنوبی امریکہ کے دو ممالک نے واشنگٹن کے اسرائیل نواز رویوں کے باوجود غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں پر احتجاج کرتے ہوئے کبولیویا، بیلیز ے نے اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیئے تھے اور اب کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے اعلان کیا ہے کہ اُن کا ملک بھی غاصب اسرائیل کی جانب سے رفح پر حملوں کا فیصلہ کرنے کے جواب میں تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے جارہا ہے، غاصب اسرائیل کے اسکتباری رویوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے غزہ کی پٹی میں شہروں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے فوری طور پر امن فوج تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے، صدرگستاو پیٹرو نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رفح میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے امکان کو روکنے کیلئے اسرائیلی وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کردے، گستاو پیٹرو نے جمعہ کو ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ بنجمن نیتن یاہو نسل کشی کو نہیں روکیں گے لہذا اِن کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے، جنوبی امریکہ کے اہم ملک کولمبیا نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے، دی ہیگ میں بیٹھے ہوئے آئی سی جے نے جنوری میں فیصلہ دیا تھا کہ غزہ میں نسل کشی اور اسرائیلی حملوں سے سنگین نقصان پہنچنے کا ممکنہ خطرہ ہے، اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے تل ابیب کو حکم دیا کہ وہ غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لئے تمام اقدامات اٹھائے لیکن اس عدالت نے اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم نہیں دیا، جس کے باعث اسرائیل کو فلسطینیوں کی مزید نسل کشی کا موقع مل گیا۔
جنوبی افریقہ اور جنوب امریکی ریاستوں نے اسرائیل کے خلاف جو جراتمندانہ اقدامات کئے ہیں وہ دنیا کی تاریخ کا سنہری باب کہلائے گا مگر جب ہم غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے تناظر میں مسلم ملکوں کے رویوں کا جائزہ لیتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، مسلم ممالک اگر اسرائیل کا صرف تیل بند کردیں تو تل ابیب کے سخت گیر یہودی حکمرانوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں، متحدہ عرب امارات اور آذربائیجان وہ مسلم ملک ہیں جو اسرائیل کی تیل کی ضروریات کا 40 سے 60 فیصد حصّہ پورا کرتے ہیں، جبکہ سعودی عرب اور ترکی بلواسطہ اسرائیل کو تیل فراہم کرنے والے ملکوں میں شامل ہیں، شوچیں اگر متذکرہ مسلم ممالک اسرائیل کا تیل بند کردیتے تو اُس کے ٹینکس اور بمبار جہازوں سے نکلنے اور برسنے والے گولے فلسطینیوں ماؤں بہنوں اور بچوں کی جان نہ لے رہے ہوتے، اسرائیلی جارحیت سے غزہ کی 2.3 ملین آبادی کا 80 فیصد حصّہ بے گھر ہوچکی ہے، کئی قصبے اور علاقے تباہی کی تصویر پیش کررہے ہیں جبکہ 34,943 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، اس کے باوجود اسرائیل نے رفح پر حملے شروع کردیئے ہیں اور دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو عارضی خیمہ بستیاں خالی کرنے کا حکم دیا ہے، اسرائیل کی زمینی فورسز فلسطینیوں کو جبری بے دخل کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کررہی ہیں، غزہ کے جنوبی شہر رفح میں انخلا کے نئے احکامات کے نتیجے میں دسیوں ہزار افراد ایک بار پھر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں، الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کے روز اسرائیلی فوج نے رفح بارڈر پر ٹینکوں کی تعداد بڑھا دی تھی، رفح کراسنگ پر اسرائیلی قبضے کے باعث اب تک ہزاروں فلسطینی وسطی غزہ منتقل ہوچکے ہیں۔
امریکہ نے اسرائیلی کی جنگی کابینہ کی جانب سے رفح پر حملوں کی منظوری دیئے جانے کے بعد اسرائیل کیلئے کنکریٹ کے مضبوط بنکروں کو تباہ کرنے والے بموں کی فراہمی عارضی طور پر روک دی ہے، اس سے قبل امریکہ کے فراہم کردہ اِن بموں نے غزہ کے جنوب اور شمال میں تباہی مچائی ہے، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو جن ہتھیاروں کی فراہمی معطل کی گئی ہے، ان میں 1800 سے 2000 پونڈ اور 1700 سے 500 پونڈ کے بم شامل ہیں جن کی مالیت کروڑوں ڈالر ہے، رفح پر حملوں کی صورت میں واشنگٹن کی اسرائیل کے خلاف تادیبی کارروائی انتہائی ناکافی ہے کیونکہ اسرائیل کیلئے اربوں ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار بدستور پائپ لائن میں ہیں جن میں ٹینکوں کے گولے اور ایف 35 کے پرزہ جات شامل ہیں، اس ک علاوہ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے غزہ میں امریکی ہتھیاروں کو سویلین کے خلاف استعمال کرنے کے اسرائیلی حکومت کے طرز عمل کے بارے میں کانگریس میں زیر التوا ایک تنقیدی رپورٹ پر نتیجہ اخذ کرنے کا عمل روک دیا ہے، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے امریکی ہتھیاروں کے استعمال کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے، اگر بلنکن اس عمل کو نہیں رکواتے تو نہ صرف اسرائیل کو امریکی میں عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بائیڈن انتظامیہ کو اسرائیل کے خلاف زیادہ سخت تادیبی کارروائی کرنا پڑ جاتیں، یہاں بھی اسرائیل کو بچانے کیلئے بائیڈن انتظامیہ نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔
سنہ 2016 میں اسرائیل نے امریکہ سے ہتھیاروں کی خریداری کا دس سالہ مراہدے پر دستخط کئے ہیں، جس کے تحت امریکہ 2018 سے 2028 کی درمیان اسرائیل کو 38 ارب ڈالر کی فوجی امداد، فوجی مقاصد کیلئے امریکی ہائی ٹیک مشینری کی خرید کیلئے 33 ارب ڈالر کی گرانٹ اور میزائل ڈیفنس سسٹم کیلئے 5 ارب ڈالر فراہم کرنا تھے، اعداد وشمار کے مطابق 2019 سے 2023 کے دورن اسرائیل اپنی 69 فیصد فوجی خریداری امریکہ سے کرچکا ہے، یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اسرائیل دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جسے امریکہ نے اپنے جدید ترین جنگی طیارے ایف 35 فروخت کیے ہیں، اسرائیل نے 75 ایف 35 خریدنے کا امریکہ سے معاہدہ کیا تھا جن میں سے 36 اسے مل چکے ہیں جبکہ پرزہ جات کی فراہمی غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران بھی جاری ہے، امریکہ دکھاوے کے اقدامات کے ذریعے اسرائیل کے جرائم میں اپنی بھرپور شراکت داری دنیا کی نظروں سے محو نہیں کرسکتا۔