تحریر : محمد رضا سید
حالیہ ہفتوں میں اسرائیل نے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی انٹیلی جنس اطلاعات سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئےانتہائی منظم طریقے سے لبنان میں حزب اللہ کے قائد اور اہم کمانڈروں کو پے درپے قتل کرکے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اُسکی انٹیلی جنس اور اتحادیوں کی انٹیلی جنس رسائی مزاحمتی قوتوں سمیت تہران میں بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے، اس موقع پر نا صرف ایران، عراق، شام، یمن بلکہ مزاحمتی قوتوں حزب اللہ اور حماس کو کاؤنٹر انٹیلی جنس اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل اور اس کے اتحادی انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیادوں پر میدان جنگ میں لڑنے کے بجائے دہشت گردی کے ذریعے مزاحمتی قیادت کو نقصان پہنچانے کے قابل نہ رہ سکیں، اسرائیلی حکومت کو بعض عرب ملکوں، آذربائیجان اور ترکی میں موجود سفارت خانوں اور اِن ملکوں کیساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے سے خاطر خواہ مدد ملتی ہے، متحدہ عرب امارات، ترکی اور آذدبائیجان وہ ممالک ہیں جہاں بیشتر مسلم ملکوں کے شہریوں کی آمد و رفت رہتی ہے اور یہ ممالک کارروباری حب بھی ہیں اور تینوں ملکوں میں اسرائیلیوں کی موجودگی بنیادی انٹیلی جنس کی جمع آوری میں اہم حیثیت رکھتی ہے، یہ بات غور طلب ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات سے قبل عرب مزاحمتی تنظیموں کے کمانڈر اور اہم ارکان کو نشانہ بناکر قتل کئے جانے کی اسرائیلی موساد کی استعداد حالیہ سالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ کم تھی، آذربائیجان نے سوویت یونین سے آزادی کے اگلے سال 7 اپریل 1992ء میں ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر لئے تھے، ترکی اور آذربائیجان میں اسرائیل کے سفارتخانے ایران میں موساد کیلئے انٹیلی جنس نیٹ ورک بنانے میں اہمیت کے حامل ہیں، واضح رہے کہ ایران میں فارسی کے بعد ترک اور آذری زبان سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔
اس بات میں شک و ابہام نہیں کہ حزب اللہ اور حماس کی اہم شخصیات اور کمانڈروں کا قتل مزاحمتی محور کی انٹیلی جنس کمزوری کا ثبوت ہے، اگر فلسطینیوں کو اُن کی چھینی ہوئی سرزمین واپس دلانی ہے اور اُن کے انسانی حقوق بحال کرانے ہیں تو اسرائیل کا عراق سے سعودی عرب اور مصر سے مراکش تک سفارتی اور انیلی جنس اثرو رسوخ کو ختم کرنا ہوگا، کیا ہم اس تاریخی حقیقت کو فراموش کردیں کہ اسرائیل نے 1973ء کی عربوں کے خلاف جنگ میں یہودی عورتوں کے منظم انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ذریعے مصر کی فضائیہ کو مفلوج کردیا، جس کے نتیجے میں ہینگرز میں کھڑے جنگی طیاروں کو اسرائیل تباہ کرنے میں کامیاب ہوا، ایران کے ایٹمی پروگرام کے خالق سائنسدان محسن فخری زادہ کا 27 نومبر 2020 ء کو تہران کے مضافات میں قتل وہ نکتہ تھا جب ایران کو تل ابیب کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو تباہ کرنے کا جنگی بنیادوں پر آغاز کرنا چاہئے تھا لیکن اب بھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے، زمینی جنگ اور میزائلز کے ذریعے حملے میں مزاحمتی قوتیں اسرائیل کا خاطر خواہ مقابلہ کرنے کے قابل ہیں لیکن اسرائیل کا انٹیلی جنس کے شعبے میں مقابلہ میں کمزریاں واضح اور عیاں ہیں،اسلامی مزاحمتی قوتیں اسرائیل کیساتھ حالت جنگ میں ہیں ، اس کے باوجود اوّلیت اسرائیلی انٹیلی جنس نیٹ ورک کو تباہ کرنے پر دینا ہوگی، تہران میں انگلستان اور فرانس کے سفارتی اہلکاروں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی ضرورت ہے جبکہ بعض مسلم ممالک کے اسرائیل کیساتھ انٹیلی جنس تعاون کو بھی مدنظر رکھا جائے، لبنان میں فرانسیسی اثر و نفوذ کی ایک پوری تاریخ ہے اور فرانس کھل کر اسلام دشمنی اور اسرائیل سے ہمدردی رکھتا ہے، لبنانی حکومت اس حقیقت سے باخبر ہے مگر اب وقت آگیا ہے کہ کسی سطح پر کوتاہی نہ برتی جائے۔
حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ مزاحمتی محور کیلئے شفیق باپ کی حیثیت رکھتے تھے اُن کا خلاء ہمیشہ محسوس کیا جاتا رہے گا، حسن نصرا للہ نے اسلامی مزاحمت کو ایک بین الاقوامی طاقت میں تبدیل کیا ہے، سید حسن نصراللہ کا قتل ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کے لئے بھی ایک اہم دھچکا ہے، اسرائیل نے امریکہ کے فراہم کردہ بنکر بسٹر بموں کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے اُن کا سفاکانہ قتل کرکے دہشت گردی جو گھناؤنی واردت انجام دی ہے، وہ ایک نا ختم ہونے والی جنگ کا ابتداء ثابت ہوگی اور بالآخر اسرائیل کی نابودی اس کا نتیجہ بن جائیگی، اس دہشت گردانہ اقدام کے ذریعے اسرائیلی قیادت نے اپنے عوام کیلئے تو ایک مشکل صورتحال کو جنم دیا ہے ساتھ ہی ساتھ خطے کی ایک بڑی آبادی کو جنگ کا دہلیز پر ڈھکیل دیا ہے۔
اکتوبر سات کے بعد غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں حزب اللہ نے اس کے شمالی محاذ پر لبنان کی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے غاصب افواج کا مقابلہ کرکے ثابت کردیا تھا کہ اسرائیل کو بھی گھٹنوں پر لایا جاسکتا ہے، فرانس اور امریکہ نے حزب اللہ کو بیش بہا آفرز کیں مگراس کی مطاہر قیادت نے مظلوم فلسطینیوں اور ارض مقدس سے غداری کے بدلے مالی منفعت کو ٹھکرادی، اسرائیل شمال میں حزب اللہ کی مزاحمت سے شدید دباؤ کا شکار ہے شمال میں اُس سلامتی خطرے میں دکھائی دینے لگی ہے، اسرائیل نے لبنان اور شام میں حزب اللہ کے درجنوں کمانڈروں کو ہدف بنا کر شہید کیا مگر اُسے اس بات کا درست ادراک نہیں ہے کہ حزب اللہ کی قیادت سمیت ہر ہر مجاہدکے کانوں امام حسین علیہ السلام کا دیا گیا پیغام گونج رہا ہوتاہے جو انہیں ظالم قوتوں سے کم طاقت اور وسائل کے باوجود عزم و ہمت کا پیکر بنادیتا ہے، جو انہیں مشکلات اور مصائب کے باوجود جہاد اور شہادتوں کا سفرجاری رکھنے پر آمادہ کرتا ہے اور کرتا رہے گا، شہید عباس موسوی کو اسرائیل نے نشانہ بناکرقتل کیا تو اللہ نے اس مزاحمتی تنظیم کو سید حسن نصراللہ دیا جنھوں نے گزشتہ 32 سالوں میں حزب اللہ کے فکر و فلسفے کو مسلم دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو یہ کہنا پڑا کہ کہ انہیں فلسطینیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن عرب نوجوانوں کی وجہ سے وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے خوفزدہ ہیں، امریکی میگزین دی اٹلانٹک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اور انٹونی بلنکن کے درمیان اس سال جنوری میں ریاض میں ہونے والی ملاقات کی لیک ہونے والی گفتگو شائع کی جس میں اُنھوں نے مزید کہاکہ “کیا میں فلسطینی مسئلے کے بارے میں ذاتی طور پر پرواہ کرتا ہوں؟ میں نہیں کرتا لیکن میرے لوگ کرتے ہیں، اس لئے مجھے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ مملکت انتشار کا شکار کا نہ ہو”، یاد رہے کہ لیک گفتگو سے ولہعہد محمد بن سلمان نے انکار نہیں بھی کیا ہے، سات اکتوبر قریب ہے جب اسرائیلی جارحیت کو ایک سال مکمل ہوجائے گا، مختلف ذرائع سے رپورٹیں موصول ہورہی ہیں یہ دن اسرائیل کیلئے ایک اور سرپرائز دن ثابت ہوگا۔