اسلام آباد ہائیکورٹ نے جبری گمشدہ محمد ہارون کے مقدمے میں دبنگ اور تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے جبری گمشدہ کئے افراد کے اہل خانہ کو بڑا ریلیف دیا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے 15 سال سے خیبرپختونخوا کے لاپتہ شہری ہارون محمد کی بازیابی کی درخواست پر بڑا حکم جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو جبری لاپتہ شہری محمد ہارون کے والد غلام محمد کو آئندہ سماعت سے قبل 30 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دے دیا، عدالت میں شہری غلام محمد کی ان کے لاپتہ بیٹے ہارون محمد کی بازیابی کے لئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت کے سامنے پیش ہوئے، اس کے علاوہ درخواست گزار کی جانب سے ایمان زینب مزاری عدالت کے روبرو پیش ہوئیں، سماعت کے دوران وکیل ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ درخواست گزار کی فیملی کو مقدمہ لڑنے پر نامعلوم افراد اور فورسز کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں، اس پر عدالت نے بذریعہ سیکریٹری داخلہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبرپختونخوا کو درخواست گزار کو سکیورٹی فراہم کرنے اور دھمکیاں دینے والے سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کردی بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو درخواست گزار کو آئندہ سماعت سے پہلے 30 لاکھ معاوضہ دینے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتے تک ملتوی کردی۔
واضح رہے پاکستان میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپنے مخالفیں کو عرصہ دراز سے جبری گمشدگیوں کا سامنا رہا ہے، یہ سلسلہ 1970ء میں مشرقی پاکستان سے شروع ہوا اور بعدازاں بلوچستان میں احتجاجاً پہاڑوں پر چڑھ جانے والے بلوچ قوم پرستوں کو لاپتہ کیا جانے لگا، بلوچستان کے ایک بڑے سردار عطا اللہ مینگل کے بیٹے کو لاپتہ کردیا گیا اور جب سکیورٹی اداروں سے دریافت کیا گیا تو بتایا گیا کہ وہ مارا گیا سردار عطا اللہ مینگل نے قبر کے متعلق دریافت کیا تو بتایا گیا کہ اُن کے بیٹے کی قبر کراچی اور حیدرآباد کے درمیان موجود ہے، پاکستان میں حقوق انسانی کے اداروں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز جن افراد کو لاپتہ کرتی ہیں اُن کے خلاف ایسے شواہد نہیں ہوتے جو عدالت میں پیش کئے جاسکیں لہذا زیادہ تر واقعات میں لاپتہ افراد کو طویل قید میں رکھا جاتا ہے یا پھر ماورائے عدالت قتل کردیا جاتا ہے۔