افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے پیشکش کی ہے کہ اگر اسلام آباد چاہے تو امارت اسلامی دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی کی کوشش کرسکتی ہے، افغانستان میں نیٹو افواج کے اخراج کے بعد افغان طالبان کی کابل میں نگران حکومت کے قیام کو تین سال مکمل ہو گئے ہیں، اس تین سالہ دور حکومت سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو نے افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا انٹرویو کیا، جس کے دوران انہوں نے اپنی حکومت، افغانستان کو درپیش چیلنجز اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں خصوصی گفتگو کی، ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اس سے پہلے افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی افواج موجود تھیں، افغانستان میں جھگڑا تھا اور روزانہ کی بنیاد پر 100 سے زیادہ لوگ مارے جاتے تھے۔ افغانستان میں بد امنی، فساد اور غاصب کی موجودگی تھی۔ بہت زیادہ مسائل تھے اور منشیات بھی موجود تھی، جب افغانستان میں طالبان کی حاکمیت قائم ہوئی تو سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ غیر ملکی افواج نکل گئیں اور دوسرا یہ کہ افغانستان میں امن قائم ہوا اور تیسرا افغانستان میں ایک واحد حکومت بنی، جس میں اختلافات نہیں ہیں، منشیات کے خاتمے اور اقتصاد میں بہتری کے لیے اقدامات کیے گئے۔ پانچواں افغانستان کی زمین محفوظ ہوئی اور ماضی کی طرح مسائل ختم ہوئے۔
افغانستان کے خارجی تعلقات کے حوالے سے ذبح اللہ نے کہا ہمارے ہمسایوں، اسلامی اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں البتہ یورپ اور امریکہ جیسے ممالک جو 20 سال تک ہمارے ساتھ جنگ لڑتے رہے، ہو سکتا ہے وہ کچھ کینہ اور بغض رکھتے ہوں لیکن وہ مسئلہ بھی آہستہ آہستہ حل ہو جائے گا اور بہت حد تک یہ حل ہوا بھی ہے، امریکہ نہیں چاہتا کہ مغربی ممالک ہماری حکومت تسلیم کریں وہ ہمارے ساتھ جنگ کرتا رہا ہے اور مخالفت بھی کرتا رہا، امریکہ امریکی مخالفت کی وجہ سے ہی اقوام متحدہ افغانستان کی طالبان حکومت تسلیم کرنے دے، ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان رقابتوں کی بھینٹ چڑھ جائے، ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان دیگر ممالک کے لئے سیاست کا میدان بن جائے، ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور جس طرح چین کے ساتھ تعلقات ہیں، سارے یہاں سرمایہ کاری کریں اور سفارتی تعلقات استوار کریں، ہم امریکہ، یورپ اور روس سے بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، ہم ایسی سیاست نہیں کرتے کہ ایک ملک کے بہت قریب اور دوسرے سے دور ہو جائیں، ہم نے اپنی کوشش کی ہے کہ امریکہ سے تعلقات بہتر ہو جائیں لیکن ان کی طرف سے کچھ نہیں آیا، تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ اس کا ہم انتظار نہیں کر سکتے، ہم دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بنائیں گے لیکن یہ کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہوں گے۔ ہم ہر کسی سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔