افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی کا کہنا ہے کہ اگر طالبان اپنے ملک میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے افراد کو اسلام آباد کے حوالے کردیں تو دونوں ملکوں کے درمیان تنازع ختم ہو جائے گا، سینیئر سفارت کار آصف درانی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے لوگ رہ رہے ہیں انہیں ان کے خلاف اقدامات اٹھانے ہوں گے ان کو ہمارے حوالے کر دیں تنازع ختم ہو جائے گی، افغان عبوری حکومت کے ایک بیان کے مطابق افغان کیلنڈر ہجری شمسی کے مطابق 24 اسد یعنی 14 اگست کو امارت اسلامیہ افغانستان امریکی شکست اور اپنی فتح کی تیسری سالگرہ منا رہی ہے، اس سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت پاکستان افغانستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ ٹی ٹی پی ملک میں تمام حملے وہاں سے کرتی ہے؟ آصف درانی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ تمام حملے وہاں سے ہوتے ہیں، ہاں ہم تو افغان عبوری حکومت کو ان حملوں کے بارے میں جن میں افغان باشندے شامل ہوں یاد دلاتے ہیں ان کی وہاں پناہ گاہیں ہیں جو اسلحہ وہ لے کر پھر رہے ہیں، خود افغانستان کے اندر افغان اسلحہ لے کر نہیں چل سکتے لیکن ٹی ٹی پی والے لے کر پھر رہے ہیں تو اس سے شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت کیا کرنا چاہتی ہے۔
آصف درانی افغان عبوری حکومت کے ساتھ تعلقات میں ٹی ٹی پی کی وجہ سے کشیدگی کو تناؤ نہیں مانتے البتہ کہتے ہیں کہ بہرحال ایک عمل ہے جو ان کے ساتھ جاری ہے، ہمیں امید ہے اور ان کی جانب سے بھی یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں تو ان پر عمل درآمد ہوگا، طالبان کی دوسری حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر آصف درانی نے انہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارا تاریخی رشتہ ہے اور وہ چل رہا ہے، چاہے کوئی بھی حکومت آجائے، اب طالبان کی حکومت آگئی ہے تین سال پورے ہوگئے ہیں، انہیں مبارک باد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ وطن میں امن اور یگانگی اور لوگوں کے حقوق کو پورا کریں گے، حقوق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں چاہے مذہبی یا نسلی اقلیتوں کے حقوق ہوں یا خواتین کے تعلیم اور ملازمت کے مواقعوں میں مساوات شامل ہے، اس مسئلے پر پاکستان نہ صرف اپنی سطح پر بلکہ او آئی سی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اتفاق رائے کا حصہ ہے، انہوں نے جنگ سے تباہ حال ہمسایہ ملک میں تین سال سے قیام امن کو پاکستان کے لئے اہم قرار دیا، وہاں ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ امن ہے اگرچہ ٹی ٹی پی ہمارے لئے ایک وجہ تشویش ہے لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھیں گے تو افغانستان کا امن ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔