تحریر : محمد رضا سید
غزہ کے جنوبی شہر رفح میں زمینی فوجی کارروائی کیلئےاسرائیلی حکومت کا اصرار ایسی صورتحال میں بھی جاری ہے جب عالمی سطح پر اس مذموم فوجی منصوبے کی کھل کر مخالفت ہورہی ہے اورخطرے کی گھنٹی بجا ئی جارہی ہے، رفح میں پناہ لینے والےکم و بیش 14 لاکھ عام فلسطینیوں خیمہ بستیاں بسا کر زندگی گزار رہے ہیں، خوف اور وحشت کے علاوہ پناہ گزین قحط کا سامنا بھی کررہے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف مکمل فتح کا ہدف رفح میں فوجی آپریشن کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا، اسرائیل کی مقتدرہ سمجھتی ہے کہ غزہ کی پٹی میں اُس کی بمباری جو 32 ہزار سے زائد عام فلسطینیوں کو شہادت کا باعث تو بنی لیکن حماس کو ختم نہیں کرسکی جو اکتوبر 7 کے بعد غزہ پر اسرائیلی حملے کا ہدف تھا۔
صحرائے سینا سے ملے ہوئے علاقے رفح بارڈر پر حماس ارکان کو تلاش کرنے اور انہیں قید یا ہلاک کرنے کی اپنی خواہش کو پورا کرنے کیلئے اسرائیل فوجی آپریشن کی تیاری کرچکا ہے، اکتوبر 7 کے بعد اسرائیلی کی غزہ پر چڑھائی اور وحشیانہ بمباری کے دوران تل ابیب اور اس کے اتحادی ملکوں امریکہ برطانیہ اور فرانس نے رفح کو محفوظ علاقہ قرار دیکر ہزاروں کیمپوں میں لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کو بسایا تھا،مصر ی سرحدی علاقےپر واقع غزہ کا سب سے جنوبی قصبہ رفح جو غزہ کے بے گھر فلسطینیوں کیلئےآخری پناہ گاہ ہے ، سوموار کو اسرائیلی فوج نے رفح پر بمباری شروع کردی ہے، فلسطینی طبی عملے کے مطابق اس فضائی حملے میں سات افراد شہید ہو ئے اور متعدد زخمی ہیں، اسرائیل کے دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ رفح میں اسرائیلی فضائیہ نے ٹارگیٹڈ حملے شروع کردیئے ہیں، جو رفح میں فوجی آپریشن کی شروعات ہے۔
اسرائیلی مقتدرہ بشمول وزیر اعظم نیتن یاہو کو غزہ میں جنگ اور رفح پر ممکنہ حملے کی وجہ سے اندرون اور بیرون ملک سخت تنقید کا سامنا ہے، اسرائیلی انٹیلی جنس سمجھتی ہے کہ حماس غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی کراسنگ رفح میں موجود زیرزمین سرنگوں کو اسلحہ اسمگلنگ کے لئے استعمال کر رہی ہےحالانکہ قاہرہ بارہا اس کی تردید کرچکاہے، اسرائیلی انٹیلی جنس کا یہ بھی کہنا ہے کہ رفح میں سرنگوں کے نیچے حماس کے 4 یونٹ چھپے ہوئے ہیں، یہ وہ بنیاد ہے جس نے اسرائیلی مقتدرہ کو رفح پر خطرناک ترین فوجی آپریشن پر آمادہ کیا ہے،سنہ 2002ء سے قبل امریکی سی آئی اے اور برطانوی ایم آئی سکس نے بھی اسی طرح کی انٹیلی جنس رپورٹس اپنی اپنی حکومتوں کو فراہم کی تھیں کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں مگر عراق پر جارحیت اور اس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد افراد کے قتل کے باوجود امریکہ اور برطانیہ کو عراق سے ایسا کوئی ہتھیار نہیں ملا، ایسی انٹیلی جنس رپورٹس پر اعتماد کرکے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنا احمقانہ فعل ہوتا ہے۔
اسی دوران یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے ایک فوجی مورخ ڈینی اورباچ نے کہا کہ اگر اسرائیل حماس جیسی تحریکوں کو ناکام بنانا چاہتا ہے تو رفح کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے لیکن اسرائیل میں تمام لوگوں ایسا نہیں سوچ رہے، امریکہ نے بھی اسرائیلی مقتدرہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اندرون ملک رفح آپریشن کے خلاف اٹھنے والی آواز کو سننےکی کوشش کرئے، اسرائیلی اپوزیشن نے خو اپنے وزیر اعظم نیتن یاہو کو جھوٹا قرار دیاہے، اسرائیلی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے، اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائرلپید نے وزیراعظم نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ان کی حکومت کو ملکی تاریخ کی سب سے جھوٹی اور خوفناک حکومت قرار دیا، لپید نے مزید کہا کہ چھ ماہ کی تکلیف دہ جنگ کے بعد اسرائیل کو فوجیوں کی کمی کا سامناہے، اُنھوں نے سوال کیا کہ نیتن یاہو کرائے کی فوج سے ملک کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے کیونکہ وہ دائیں بازو کے اپنے اتحادیوں کی ناراضگی پر مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے یہودیوں کو لازمی فوجی سروس کے اِسْتِثْنا ختم نہیں کررہے ہیں جبکہ اس جنگ نے اسرائیل کو معاشی بحران کے دلدل میں ڈھکیل دیا ہے جس کی بحالی کیلئے دہائیوں محنت کرنا پڑے گی۔
حماس کی قید میں موجود افراد کی رہائی میں ناکامی پر اسرائیل کے اندر اُٹھنے والی آواز قوی ہوتی جارہی ہے، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی میں تاخیر سے یہودی آبادی میں اپنی حکومت کیلئے غصّہ بڑھ رہا ہے، دوسری طرف فلسطینی تحریک حماس کے مسلح ونگ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ ایک 34 سالہ اسرائیلی اسیر دوا اور خوراک کی کمی کے باعث موت کا شکار ہوگیاہے، اسرائیل نےسوموار کو اقوام متحدہ کو مطلع کیا ہے کہ وہ اب یو این آر اے کے زیر انتظام کسی امدادی قافلے کو رفح میں داخل نہیں ہونے دے گی، جہاں 70 فیصد لوگوں کو خوراک کی شدید ترین کمی کا سامنا ہے، اس صورتحال میں اسرائیلی قیدیوں کے مستقبل کو بھی خطرہ لا حق ہوسکتا ہے، جنگ بندی تک کتنے اسرائیلی شہری حماس کی قید میں ادویات اور خوارک کی کمی سے ہلاک ہونگے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
اُدھرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے کہا ہے کہ امریکہ رفح میں اسرائیلی آپریشن پر واضح موقف رکھتا ہے کہ رفح میں فوجی کارروائی اسرائیل کی ایک بڑی غلطی ہوگی، میں نے نقشوں کا مطالعہ کیا ہے، اسرائیلی فوج کیلئے رفح میں داخلے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور ہم رفح میں تقریباً ڈیڑھ ملین لوگ موجود ہیں کیونکہ انہیں وہاں جانے کیلئے کہا گیا تھا، ہیریس نے کہا کہ ہم بالکل واضح ہیں کہ کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کے ساتھ رفح میں داخل ہونا ایک غلطی ہوگی، جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر اسرائیل امریکی مذمت کے باوجود رفح میں فوجی آپریشن کیلئے اصرار کرتا ہے تو اس کے برآمد ہونے والے نتائج کیا ہونگے، ہیرس نے کہا کہ وہ کسی بھی چیز کو مسترد نہیں کر رہی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین اس بات پر پریشان ہیں کہ امریکہ رفح میں ممکنہ اسرائیلی فوجی کارروائی پر بار بار انسانی المیہ رونما ہونے کے بارے میں عالمی برادری کی کیوں ذہن سازی کررہا ہے؟، کیا امریکہ کے پاس رفح پر اسرائیل کے حملے کا پلان موجود ہے اور کیا اسی مقصد کے تحت امریکہ نے پہلے سے شور مچا نا شروع کردیا ہے اور اس مذموم اسرائیلی آپریش کی بظاہر مخالفت کرکے اسرائیلی جرائم سے اپنے آپ کو بری الزمہ کرنے کی کوشش کررہا ہے؟ یہ یاد رکھنے والی سچائی ہے کہ امریکہ اگر اکتوبر 7 کے بعد اسرائیل کی پشت پناہی نہ کرتا تو غزہ میں 32 ہزار فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی نہ ہوتے، امریکہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران اُسے انٹیلی جنس معلومات اور اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ فوجی اور معاشی امداد فراہم کرنے کے علاوہ بحیرہ احمر میں اسرائیل کیلئے براہ راست جنگ لڑنے میں مصروف ہے، اگر امریکہ رفح پر اسرائیل کے فوجی آپریشن کی مخالفت میں مخلص ہے تو تل ابیب کو ہر قسم کی امداد بن کردے پھر دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کتنی دیر تک اپنی سلامتی کو یقینی بناسکتا ہے۔
2 تبصرے
حماس کے مجاہدین کو اسرائیلی فوج نہیں ڈھونڈ سکے گی کیونکہ اس کے عسکری ارکان زیادہ تر سعودی عرب پہنچادیئے گئے ہیں اور وہ محفوظ مقامات پر ہیں، اسرائیل جو ہزاروں حماسیوں کو قتل کرنے اور گرفتار کرنے کی بات کررہا ہے وہ سب جھوٹ ہے، اگر اسرائیل سچا ہے تو اُن کی تصاویر شائع کرئے۔
اللہ تعالیٰ حماس کے مجاہدین کی حفاظت فرمائے ، اسرائیل کے خلاف یہ مزاحمت نہ ہوتی تو آج فلسطینی اپنی سرزمین سے نکال باہر کردیئے ہوتے۔