امریکی تحقیقاتی اداروں کے نزدیکی ذرائع سے میڈیا پر آنے والی خبر میں بتایا جارہا ہے کہ ایران حکام سے روابط رکھنے والے ایک پاکستانی شخص کو امریکہ میں سیاست دانوں اور سرکاری حکام کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین پیئر نے منگل کو میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکہ میں سیاسی قتل کی سازش تیار کرنے کے الزام پر محکمۂ انصاف کی جاری تحقیقات میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملی جس سے ثابت ہو کہ ملزم کا تعلق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے سے ہے، امریکی محکمۂ انصاف نے منگل کو پاکستانی شخص آصف مرچنٹ پر امریکہ میں سیاسی قتل کی سازش کا الزام عائد کیا تھا، مرچنٹ کا ممکنہ طور پر تعلق پاکستان کی خوجہ برادری سے ہوسکتا ہے، فرد جرم عائد کرتے ہوئے حکام نے کہا کہ آصف مرچنٹ امریکی عوامی شخصیات کو کرائے کے قاتل کے ذریعے نشانہ بنانے کی سازش میں ملوث ہے اور اس کے ایران کے ساتھ تعلقات ہیں، وائٹ ہاؤس کی ترجمان سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس محکمۂ انصاف کی فرد جرم سے آگاہ ہے، البتہ معاملے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں، وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ سابقہ سیاست دانوں کے خلاف ایران کی طرف سے خطرات کو ٹریک کرتا رہا ہے اور ان خطرات کا تعلق ایران کے سابق جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے سے ہے۔
یاد رہے کہ قاسم سلیمانی ایران کے پاسداران انقلاب اسلامی کے ایک کمانڈر تھے جو سال 2020 میں ایک امریکی حملے میں ہلاک ہوگئے تھے، قاسم سلیمانی کے خلاف کارروائی کا حکم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا جبکہ ایران نے سلیمانی کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا، دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی آصف مرچنٹ کے معاملے پر ایک بیان میں کہا ہے کہ حکام نے میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں، وہ امریکی حکام سے رابطے میں ہیں اور اس سلسلے میں مزید تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں، ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان نے امریکی حکام کے بیانات کو نوٹ کیا ہے کہ یہ تحقیقات ابھی جاری ہیں، رسمی ردِ عمل دینے سے پہلے فرد جرم میں نامزد شخص کا پس منظر جاننے کی ضرورت ہے، امریکی وفاقی حکام نے آصف مرچنٹ کی شناخت ایک پاکستانی شہری کے طور پر کی ہے جنہیں 12 جولائی کو حراست میں لیا گیا تھا، آصف مرچنٹ کے بیوی اور بچے ایران میں ہیں، محکمۂ انصاف کے مطابق مرچنٹ اکثر ایران، شام اور عراق کا سفر کرتے رہے ہیں۔