امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے اسرائیلی ہم منصب یوآو گیلنٹ سے کہا ہے کہ جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح میں بے گھر فلسطینیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ایک قابل اعتماد منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کوئی فوجی کارروائی شروع ہونے سے پہلے بے گھر لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے، پینٹاگون نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں فریقوں نے خان یونس میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں پر ٹیلی فون پر بات چیت کی، آسٹن نے گیلنٹ کے ساتھ انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو غلطی سے نشانہ بنانے سے بچانےکے لئے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی تبادلہ خیال کیا، آسٹن نے اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا کہ زیادہ سے زیادہ امداد فلسطینی شہریوں تک پہنچے اور گیلنٹ نے اسرائیلی وزیر دفاع سے رفح میں اسرائیلی فوج کی پُرتشدد کارروائیوں پر بھی گفتگوکی جس کے باعث انسانی امداد کے قافلوں کی غزہ آمد میں رکاوٹ ہیں، واضح رہے کہ رفح سرحد پر فلسطینیوں کو خوارک اور ادویات پہنچانے والے اداروں کو اسرائیلی فوج تشدد کا نشانہ بنارہی ہے جسکی وجہ سے فلسطینی خاندانوں حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور ڈبلیو ایچ او کے مطابق غزہ اس صدی کا سب سے بڑا انسانی المیہ بن چکا ہے، متشدد یہودیوں نے کارم شالوم کراسنگ کے قریب بار بار مظاہرے کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امداد کو غزہ کی پٹی میں داخل ہونے سے روکا جائے۔
اس سے قبل امریکہ اور بعض یورپی ملکوں کی ضمانت پر غزہ کے رہائشی خاندانوں نے بے سر و سامانی کی حالت میں شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی طرف ہجرت کی تھی اور اُس وقت یقین دلایا گیا تھا کہ اسرائیلی حملے جنوبی اسرائیل تک محدود رہیں گے تاہم جب اسرائیل حماس کی سیاسی اور فوجی قیادت کو مات نہیں دے سکا تو اس نے شمالی غزہ پر بھی حملے شروع کردیئے، اِن حملوں سے بچاؤ کیلئے فلسطینی خاندانوں نے ایک بڑی ہجرت رفح بارڈر کی طرف کی اور اب بھی امریکہ اور یورپی طاقتوں نے فلشطینیوں کو یقین دلایا کہ اسرائیلی حملوں سے رفح بارڈر پر فلسطینی خاندان محفوظ رہیں گے، مگر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے اسرائیلی ہم منصب یوآو گیلنٹ سے ٹیلی فونک بات چیت میں اسرائیل کو رفح میں فلسطینیوں کے قتل عام کرنے کی مشروط اجازت دیدی ہے، انسانی تاریخ کی مختصر عرصے میں فلسطینیوں نے شمالی غزہ کی طرف ایک بڑی ہجرات کی اس کے باوجود اسرائیلی حکومت اور فوجی ماہرین کے مطابق یہاں وہ حماس کے عسکری نظام اور سیاسی قیادت کا خاتمہ نہیں کرسکے لہذا اسرائیل نے اپنی خفت مٹانے کیلئے شمالی غزہ پر حملے شروع کردیئے اور ہزاروں فلسطینی خاندانوں کو شمالی غزہ سے بھی بے دخل کرنا شروع کردیا اور رفح سرحد کی طرف فلسطینی خاندانوں کو ہجرت پر مجبور کیا، اسرائیل کو شمالی غزہ میں بھی حماس کی قیادت کو مٹانے کیلئے کامیابی نہیں ملی لہذا اب اسرائیل رفح سرحد پر فوجی حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو حماس کو اس آخری علاقے میں شکست دینے اور 7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے غزہ میں قید اسرائیلیوں کو آزاد کرنے کے لئے رفح پر زمینی حملہ کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ملکوں کے علاوہ مصر رفح بارڈر پر اسرائیلی ممکنہ اسرائیلی حملے کی شدید مخالفت کررہا ہے، مصر یہ سمجھتا ہے کہ رفح بارڈر پر اسرائیل کے فوجی آپریشن کے نتیجے میں اسرائیل فلسطینیوں کو مصر کے علاقے صحرائے سینا میں ڈھکیل دے گا اور یوں اسرائیل غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرکے وہاں یہودی بستیاں آباد کرکے اس پر قبضہ کرلے گا، مصر کو یہ خوف لاحق ہے کہ اسرائیلی فلسطینیوں سے جنگ کرکے اُن کی آبائی زمینوں پر قبضہ کرتا رہا ہے اور اب وہ صحرائے سینا پر فوج تعینات کردے گا، مصر کا خوف درست ہے یہودی ریاست فلسطین پر مکمل کنٹرول کے بعد مصر اور شام کی طرف بڑھے گی، جو اسرائیل کی متشدد ریاست کی پرانی خواہش ہے، امریکہ برطانیہ اور فرانس اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کررہے ہیں، یہ پشت پناہی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی حمایت میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنے سے ہو یا پھر یمن کی جانب سے فلسطینیوں کی مدد کیلئے اسرائیل جانے والے بحری جہازوں کو روکنےخیلیج عدن میں روکنے کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کا یمن پر حملے کی صورت میں ہو، گزشتہ روز ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے والے مسلمان ملکوں کی بے حسی پر افسوس کا اظہار کیا جو اسرائیل کی مسلم دشمنی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے باوجود اسرائیل سے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں، خیال رہے ترکی، متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر نے غزہ میں اسرائیلی بربریت کے باوجود اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کررکھے ہیں، اس سے بھی بدترین صورتحال اُس وقت دیکھنے کو ملی جب سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیل دو ریاستی حل قبول کرلے تو سعودی اسرائیل تعلقات استوار ہوجائیں گے، اس کو فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے علاوہ اور کیا کہا جائے گا۔
1 تبصرہ
Israel tabahi ki taraf ja raha hai