امریکی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں اتحادی حکومت کے قیام سے قبل تبصرہ سے انکار کردیا، بدھ کے روز امریکی دفترِ خارجہ کی پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے پوچھا کہ آیا امریکہ پاکستان میں قائم کی جانے والی اتحادی حکومت جس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی پارٹی شامل نہیں کو پاکستان عوام کی نمائندہ جماعت سمجھتا ہے؟ اس پر امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کے اندر کی جانے والی اتحادی سیاست اس کا اندرونی معاملہ ہے، یہ اس ملک کا اپنا فیصلہ ہے، یاد رہے کہ عام انتخابات کے بعد ملک میں پھیلی سیاسی غیر یقینی کی صورتحال میں اس وقت ہیجان دیکھنے میں آیا جب اچانک منگل کی شب پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ دونوں جماعتیں ملک میں اگلی حکومت بنائیں گی جبکہ اس سے قبل مذاکرات کے چھ دور ہوچکے تھے، اس نئے حکومتی اتحاد کے تحت، شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ جبکہ آصف علی زرداری صدر کا عہدہ دینے کا فیصلہ ہوا، جس کے بعد ایم کیوایم نے بھی شہباز شریف کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرلیا اور وفاق میں کم از کم پانچ وزارتیں مانگ لیں۔
پاکستان میں عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے بارے میں ملر کا کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ الیکشن میں بے ضابطگیوں کے کسی بھی دعوے کی مکمل تحقیقات دیکھنا چاہتی ہے، پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش بشمول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملر کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان سے آزادی اظہار کا احترام کرنے اور ٹویٹ سمیت کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک رسائی کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، ان کا کہنا تھا امریکہ نے سرکاری سطح پر اس بارے میں پاکستانی حکام کو اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے، پاک افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور افغان طالبان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان باضابطہ سرحد ماننے سے انکار پر ملر کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان اور پاکستان دونوں کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر علاقائی سالمیت کی حمایت کرتا ہے۔
1 تبصرہ
امریکہ نے ہی پاکستان میں اپنے وفاداروں کے ذریعے عمران خان کی کامیاب حکومت گرائی اور اب امریکہ شیطان غیرجابنداری دکھا رہا ہے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہورہی ہے لیکن اُس نے فوجی امداد پر پابندی نہیں لگائی تاکہ پاکستانیوں کے حقوق کو بچایا جا سکے۔