غزہ میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے ایرانی دارالحکومت تہران میں اپنے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے، حماس نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ہنیہ کو غدار صہیونیوں نے نشانہ بناکر شہید کیا ہے، حماس کے سیاسی بیورو کے رکن موسیٰ ابو مرزوق نے اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا جس کا جواب دیا جائے گا، حماس کے سینئر ترجمان سامی ابو زہری نے بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم القدس کو آزاد کرانے کیلئے اسرائیل اور اس کے حمایت کرنے والوں کیساتھ کھلی جنگ لڑ رہے ہیں اور کوئی بھی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں، اس قتل کی قیمت ادا کرنے کا عہد کیا، پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے بین الاقوامی تعلقات کے ترجمان مہر الطاہر نے ہنیہ کو ایک رہنما کے طور پر سراہا جنھوں نے فلسطینی کاز کے حصول کیلئے قربانی دی ہے، انہوں نے کہا کہ اس قتل کے بعد غاصب اسرائیل نے تمام سرخ لکیروں کو عبور کرکے مزاحمتی محور کے ساتھ ایک بڑی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے، فلسطینی عہدیدار نے خبردار کیا کہ دشمن کو اس گناہ پر پچھتاوا ہو گا جو اس نے اسماعیل ہنیہ کو قتل کرکے اور ایرانی خودمختاری پر حملہ کرکے کی ہے۔
اسلامی جہاد تنظیم نے کہا کہ اسرائیلی حکومت امریکی حمایت کے بغیر مظالم کا ارتکاب نہیں کر سکتی ہے، اسلامی جہاد نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ غزہ میں مزاحمت کی علامت تھے، انہیں اسرائیل نے غیر مشروط امریکی حمایت کی وجہ سے قتل کرسکا ہے، اسلامی جہاد کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے بھی ہنیہ کے قتل کو فلسطینی قوم کے لئے ایک بہت بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل کی یہ سوچ ہے کہ مزاحمتی قائدین کو ٹارگٹ کرکے قتل کردے گا اور یوں اس کے مظالم کے خلاف مزاحمت ختم ہوجائے گی تو وہ غلط سوچ رہا ہے، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی اسماعیل ہنیہ اور اِنکے محافظ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی اور خطرناک پیش رفت قرار دیا، تہران میں فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا جب وہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کیلئے جنگ بندی معاہدے پر کام کررہے تھے۔