بھارت اور ایران کے درمیان چابہار پورٹ سے متعلق 10 سالہ معاہدے پر امریکہ کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے کی دھمکی نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ نئی دہلی کے تجزیہ کار اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا اسے بھارت امریکہ رشتوں میں گراوٹ کے طور پر دیکھا جائے یا یہ اقدام ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ امریکہ کو اس بارے میں تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ چابہار اس کیلئے کوئی ایشو نہیں یہ بھارت اور ایران کے درمیان کا معاملہ ہے، اس معاہدے کے چند گھنٹے بعد امریکی وزارتِ خارجہ میں نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ ہم اس معاہدے سے متعلق رپورٹوں سے آگاہ ہیں۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو ایران پر امریکہ کی پابندیاں ہیں۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ اگر کوئی ملک اس سے تجارتی معاہدہ کرتا ہے تو اسے ممکنہ پابندیوں کے خطرے سے آگاہ ہونا چاہیے، معاہدے پر دستخط کے بعد ایرانی وزیر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ جہاز رانی منصوبہ لانچ کرنے کی بھی تجویز رکھی گئی ہے۔
وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے معاہدے کا خیر مقدم کیا، انھوں نے پیر کو ممبئی میں کہا کہ بھارت اور ایران کے درمیان شہید بہشتی پورٹ ٹرمینل کے آپریشن کیلئے طویل مدتی معاہدے پر دستخط کے بعد چابہار بندرگاہ میں مزید سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں گے، ان کے بقول ابھی بندرگاہ مکمل طور پر آپریشنل نہیں ہے، اگر طویل مدتی معاہدہ نہیں ہوتا تو اس میں سرمایہ کاری مشکل ہوتی لہٰذا اس معاہدے کے بعد مزید سرمایہ کاری اور سرگرمیاں بڑھیں گی، چابہار کی وجہ سے ہمارے روابط وسطی ایشیا سے قائم ہوں گے، عالمی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی اس دھمکی کی متعدد وجوہات ہیں، بائیڈن انتظامیہ امریکہ میں مقیم خالصتانی رہنما گورپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی مبینہ سازش اور کینیڈا میں ایک خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے سلسلے میں بھارت پر دباؤ ڈالتی رہی ہے۔
1 تبصرہ
پاکستان کو بھی ایران گیس پائپ لائن سے متعلق امریکہ سے یہی رویہ اختیار کرنا ہوگا