تحریر : محمد رضا سید
ایران کی جانب سے اسرائیل پر کئے گئے جوابی حملوں کے تناظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس اسرائیل کی درخواست پر اتوار 14 اپریل کو طلب کر لیا گیا ہے، صدر سلامتی کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں اسرائیل نے کہا ہے کہ ایران کا حملہ عالمی امن اور سکیورٹی کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے، اس خط میں ایران پر متعدد الزامات عائد کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے سپاہ پاسداران انقلاب کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، اُدھر ایران نے بھی سلامتی کونسل کے صدر کو لکھے گئے خط میں اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اسے اپنے دفاع میں اٹھایا گیا اقدام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایران کا جوابی حملہ عالمی قوانین کے عین مطابق تھا، دوسری طرف چین نے اسرائیل اور ایران کے تازہ ترین تنازعے پر ردعمل دیتے ہوئے تحمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اتوار کو جاری ہونے والے ایک بیان میں اس نے کہا کہ اسے موجودہ کشیدگی پر گہری تشویش ہے، چین نے مزید کہا کہ اس نے متعلقہ فریقوں سے کشیدگی میں مزید اضافے سے بچنے کے لئے پرسکون اور پرامن رہنے کا مطالبہ کیا ہے، چین اور روس سمیت عالمی رائے عامہ اسرائیل سے توقع کررہی ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید غلطی کرنے سے گریز کرئے گا، ایران کے میزائل اور ڈرونز حملے بنیادی طور پر اسرائیل کیلئے ایک تَنَبُّہ تھی، ورنہ جن ڈرونز اور میزائلز نے 7 اہداف کو نشانہ بنایا ہے وہ تباہی اور بربادی کی داستان رقم کرسکتے تھے، ایران خطے میں کشیدگی چاہتا تو خودکش ڈرونز اور میزائلز کو سنگین وارہیڈز سے مسلح کرتا، ایران صرف اسرائیل کو تَنَبُّہ کرنا چاہتا تھا اور یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ اسرائیل کو ٹکر دینے کی صلاحیت اور ہمت رکھنے والا ایک مسلم ملک اس خطے ارضی پر موجود ہے، یہاں پر مجھے ناجانے کیوں پاکستان کی مقتدرہ کی بے بسی یاد آگئی جو بقول اقبال پنجہ یہودی کے اسیر دکھائی دیتے ہیں، کہنے کو ہم ایٹمی طاقت ہیں جدید فضائیہ رکھتے ہیں، پراکسی لڑنے کے ماہر ہیں مگر 35 ہزار فلسطینیوں کا خون بہنے کے باوجود ذرا سا بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے، چھوڑیں اسرائیل کو بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس نے پاکستان میں گھس کر 20 پاکستانی شہریوں کو قتل کردیا مگر انتخابی دھاندلی کے ذریعے بیٹھائے گئے حکمران بھارت سے تجارت کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ کرپشن کی وجہ سے اِن حکمرانوں کی خودی اِن سے چھین لی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس دمشق حملے کے بعد بھی منعقد ہوا تھا اور اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی تجویز کئے بغیر ختم کردیا گیا تھا، سلامتی کونسل کی کارروائی میں اسرائیل کے اتحادی ممالک امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی موجودگی میں تل ابیب کے خلاف کسی طرح کی تادیبی کارروائی کا امکان موجود نہیں ہے کیونکہ سلامتی کونسل کے کم ازکم 3 مستقل ممالک امریکہ برطانیہ اور فرانس اسرائیل کے ہمنواؤں میں شامل ہیں، جب ہم غزہ کی جنگ بندی کیلئے سلامتی کونسل کی منظور شدہ قرارداد کا جائزہ لیتے ہیں تو سب سے اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ اس قرارداد کی منظوری کے وقت امریکہ غیر حاضر تھا اور قرارداد میں جنگ بندی کیلئے متحارب فریقین کو پابند نہیں کیا تھا اسی لئے اسرائیل نے اس بے وقعت قرارداد کو اہمیت ہی نہیں دی حالانکہ اس قرارداد کو غاصب مملکت کے علاوہ پوری دنیا کی حمایت حاصل تھی، سلامتی کونسل کی بانڈنگ کے بغیر قرارداد کی اخلاقی حیثیت تو ہوتی ہے مگر اس کے نفاذ کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا جیساکہ کشمیر میں استصواب رائے کے متعلق سلامتی کو نسل کی قرارداد کو اسکی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، سلامتی کونسل سے اسرائیل نے درخواست کی ہے کہ ایران کی سرکاری فورس سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کو کالعدم قرار دیا جائے یقیناً سلامتی کونسل کے کم ازکم دو ارکان چین اور روس اس قرارداد کی حمایت نہیں کرسکتے اگر اس قسم کی قرارداد منظور کرانے کی کوشش کی گئی تو یہ دونوں ملک اس قرارداد کو ویٹو کردیں گے جس طرح غزہ میں جنگ بندی کیلئے پابند قرارداد کو کم ازکم 3 مرتبہ امریکہ نے ویٹو کیا تھا، ایران نے کہا ہے کہ وہ دمشق کے سفارتخانے پر اسرائیل کے ایف 35 طیاروں سے میزائل داغ کر کئے گئے حملے کا جواب دے چکا ہے اور فی الحال وہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کیلئے کام کرئے گا، امریکہ نے بھی نیتن یاہو کو یہی سمجھایا ہے کہ وہ جوابی اقدامات کے بجائے اسرائیل کو موجودہ صورتحال سے رسکیو کریں، اسرائیلی کی داخلی سیاست بھی نیتن یاہو کو بحیثیت وزیراعظم برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، اسرائیل کیلئے یہ اچھا موقع ہے کہ حماس کی شرائط جوکہ جائز بھی ہیں کو تسلیم کرکے غزہ میں امن بحال ہونے دے اور اپنے ملک کی عوام کو نیا وزیراعظم چننے کا موقع دے۔