تحریر: محمد رضا سید
امریکہ نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر عملدرآمد کیا گیا تو پاکستان کو ممکنہ نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، امریکی محمکہ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کو نرم الفاظ میں دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے ایران کیساتھ کئے گئے تجارتی معاہدوں پر عملدرآمد کیا تو اسلام آباد کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اس سے قبل جب مارچ 2024ء میں پاکستان کی حکومت نے طویل عرصے بعد پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا تب بھی امریکہ کا کہنا تھا کہ وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت نہیں کرتا اور اس نے خبر دار کیا ہے کہ تہران کے ساتھ کاروبار کرنے کی صورت میں اسلام آباد امریکی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے،امریکی پالیسیوں کے دوہرا معیار سے کون واقف نہیں ہے، اسی امریکہ سے آنکھیں ملاکر بات کرنے والے ممالک نے ایران کیساتھ تیل اور دیگر اشیاء کی تجارت کیلئے امریکی پابندیوں سے استثنا حاصل کیا ہوا ہے، اِن ملکوں میں چین، بھارت، جنوبی کوریا، اٹلی ، ترکی اور چاپان سرفہرست ہیں ، امریکی استثناء حاصل کرنے والے ملکوں میں عراق ، قطر، آرمینیا، وسط ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہیں جبکہ مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک سے ایران کے تجارتی روابط امریکی پابندیوں کی زد میں نہیں آتے،امریکہ نے ایران سے تجارت کرنیکا استثناء اِن ملکوں کی توانائی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دیا گیاہے، پاکستان جسے توانائی کی شدید کمی کا سامنا ہے جسکی وجہ سے پاکستان کی معیشت نابودی کے قریب پہنچ چکی ہے ۔
یہ کیسی دوستی ہے، پاکستان کو سستی توانائی کی انڈیا سے زیادہ ضرورت ہے تو کیوں امریکہ پاکستان کو ایران سے سستی توانائی حاصل کرنے سے روکتا ہے؟ ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ ہورہی ہے جسکا ایران کو تو فائدہ پہنچتا ہے مگر پاکستان کو سالانہ ملین آف ڈالرز کا خسارہ برداست کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان کے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے امریکی دوستی میں وہ سب کچھ کیا جو عالمی اخلاقیات اور قانون کے خلاف تھا،روایتی دوستوں کی ناراضگی قبول کی، فوجی اڈے دیئے، روس کو ناراض کیا جبکہ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے مالی اور فوجی امداد ملی اُس سے پاکستان کے عوام کا کوئی لینا دینا نہیں تھا، حکمرانوں نے اس مالی امداد میں اپنا حصّہ بقدر جُثہ لیا اور وہ دولت گھوم کر واپس مغربی ملکوں میں پہنچ گئی، پاکستان کو بعض مواقعوں پر نان نیٹو اتحادی کا اعزاز بھی ملا، پاکستان میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کیلئے بلند و بانگ دعوے کئے گئے، امریکی سابق صدر بُش جونیئر نے سابقہ قبائلی علاقوں میں اسلحہ سازی کی گھریلو صنعت کو عالمی معیار کی صنعت میں تبدیل کرنے کامنصوبہ پیش کیا لیکن یہ منصوبہ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا، امریکی امداد کے فوائد اُٹھانا والا ایلیٹ طبقہ تھا، پاکستان کے عوام کو تو صرف دہشت گردی کا تحفہ ملا البتہ نوازشریف خاندان اور زرداری خاندان دبئی اور لندن میں محلات خریدے، ابھی حال میں سیاسی اور وردی پوشوں کی دبئی میں جائیدادیں نکلیں جسے حکمرانوں اور میڈیا نے بڑی خاموشی کیساتھ دبا دیا۔
قیام پاکستان سے لیکر ابتک پاکستان کی ترقی کے طویل المعیاد منصوبوں میں امریکہ کا نام دور دور تک سننے کو نہیں ملے گا،پاکستان میں اسٹیل مل روس نے تعمیر کی، ریلوے سے لیکر ڈیموں کی تعمیر اور سی پیک منصوبہ چین نے بڑی حد تک مکمل کیا گوردر میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ائیرپورٹ چین ہی تعمیر کررہا ہے، گوادر پورٹ چین نے تعمیر کرکے پاکستان کے حوالے کردی ، یہ تو پاکستانیوں کا نصیب خراب نکلا کہ گوادر پورٹ کی تعمیر کے بعد حکمرانوں نے اسےسنگاپور کے حوالے کردیا اور بالآخر 2013ء میں گوادر پورٹ چین کے حوالے کردی گئی، جس کے بعد امریکہ نے اپنا کھیل شروع کردیا بلوچستان بدامنی کا شکار ہوا اور اب جب گوادر میں بین الاقوامی ائیرپورٹ کا افتتاع ہونا تھا تو 26 سے 28 اگست تک تشدد کے ایسے واقعات رونما ہوئے جسکی نظیر قیام پاکستان کے بعد بلوچستان میں نہیں ملتی، پاکستان کو امریکی دوستی سے ہمیشہ نقصان پہنچا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے بارے میں کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ کاروباری معاہدوں پر عمل کرنے والوں کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ ان معاہدوں کے ممکنہ مضمرات سے آگاہ رہے، رواں سال اپریل میں وزارت توانائی نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے گوادر سے 80 کلومیٹر طویل پائپ لائن کو ایرانی سرحدتک بچھائی جا چکی پائپ لائن سے منسلک کرنے کے لئے کام شروع کردیا ہے، اس منصوبے پر 44 ارب روپے کی لاگت آئے گی اور منصوبہ دو سال میں مکمل ہونے کا امکان ہے، امریکی ترجمان نے کہا کہ اُن کا ملک حکومت پاکستان کے ساتھ توانائی کے تحفظ پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں، ملر نے بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی ہے جن کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
امریکہ نے رواں سال مارچ میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کے عزم کو متزلزل کرنے کیلئے دھمکی لگائی تھی کہ پاکستان نے اس منصوبے پر کام کو آگے بڑھایا تو پاکستان ہماری عائد کردہ پابندیوں کے دائرے میں آ جائے گا، پاکستان کے حکمرانوں کو ملکی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا اور اس وقت توانائی کی ضرورتیں پوری کرنا ملکی مفاد میں ہے، پاکستان آنے والی سردیوں میں ایک بار پھر قدرتی گیس کی کمی کے مسائل دوچار ہوگا، پاکستان کی حکومت اور فوج کو امریکی دباؤ قبول کرنا ہوگا کب تک ہم آزاد ہونے کے باوجود امریکہ کے تابع مہمل رہیں گے۔