جمعیت علمائے اسلام(ف) فضل الرحمٰن کہنا تھا کہ تمام اکابرین اور دوست جانتے ہیں کہ میں پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، لیکن میں نے اپنے دوستوں کے لیے اور وحدت کے لیے اپنے مؤقف اور رائے کی قربانی دی تھی، عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی، جنرل (ر) فیض حمید میرے پاس آئے اور کہا سسٹم کے اندر رہ کر آپ جو کرنا چاہیں ہمیں اعتراض نہیں ہوگا لیکن سسٹم سے باہر جاکر نہیں، میں نے اس سے انکار کردیا تھا لیکن پھر جب پی ٹی آئی کے لوگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی ٹوٹ کر آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس اکثریت ہے، سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ’اگر اس وقت میں عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا کہ مولانا نے عمران خان کو بچا لیا، عدم اعتماد سے متعلق جنرل (ر) فیض اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ ہمارے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کی موجودگی میں سب کو بلایا گیا اور سب کے سامنے کہا گیا کہ آپ نے ایسا کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے، اتحادی حکومت کو پیش آنے والی معاشی مشکلات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ان مشکلات کی وجہ سے ہی یہ بطور دلیل کہا جارہا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت ڈیڑھ سال میں ڈلیور نہیں کر سکی اور مہنگائی بڑھتی چلی گئی۔
اگر ایسا ہے تو اس کا اثر (ن) لیگ پر پنجاب میں پیپلز پارٹی پر سندھ میں ہونا چاہیے تھا، صرف خیبر پختونخوا کے اندر ہم پر کیوں بم چھوڑا گیا اور ہمیں اس کا کیوں نشانہ بنایا گیا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وفد سے ممکنہ ملاقات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جب بات ہوگی اس کے بعد پتا چلے گا کہ کیا جواب دینا ہے، پی ٹی آئی کے ساتھ دماغ کا فرق ہے جو ختم ہوسکتا ہے، اسمبلی میں ہم تحفظات کے ساتھ جارہے ہیں اس لیے وزارت عظمیٰ یا دیگر عہدوں کے لیے کسی جماعت کی حمایت نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ ’حکومت بنانے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے میں اسے کامیاب حکمت عملی نہیں سمجھتا لیکن اگر انہوں نے فیصلہ کیا ہے تو اس کے اچھے برے کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے، ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوئے ہیں تو 9 مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا اور اس کا مطلب لوگوں نے غداروں کو ووٹ دیے ہیں، ریاستی اداروں کا احترام ہے لیکن وہ سیاست میں کیوں آتے ہیں، ہم ان کو سپورٹ کریں گے وہ جمہوری نظام کو سپورٹ کریں۔