برطانوی ہاؤس آف کامنز میں غزہ میں جنگ بندی کی تجویز میں ترمیم پر بحث کے بعد شدید ہنگامہ اور افراتفری کے مناظر دیکھنے میں آئے، جس کی وجہ سے ایوان کی سپیکر لنڈسے ہوئل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ہاؤس کے اسپیکر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا گیا جب اس نے غیر روایتی طور پر لیبر پارٹی کو اسکاٹش نیشنل پارٹی کی طرف سے پیش کردہ تجویز میں ترمیم پیش کرنے کی اجازت دی، اپنی تجویز میں اسکاٹش نیشنل پارٹی نے فوری جنگ بندی اور فلسطینی عوام کے خلاف اجتماعی سزا کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا، جب کہ لیبر پارٹی کی ترمیم نے فوری انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور سفارتی عمل پر زور دیا اور ساتھ ہی دو ریاستی حل کی ضرورت پر زور دیا۔
مبصرین نےبتایا کہ کیر اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی کی تجویز جو اس سال انتخابات سے قبل رائے عامہ کے جائزوں میں سرفہرست ہے کا مقصد اس معاملے پر پارٹی کے اندر تقسیم سے بچنا ہے، قدامت پسند حکومت نے ایک ترمیم پیش کی جس میں فوری انسانی امداد کیلئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا لیکن بالآخر اسے واپس لے لیا، ہاؤس آف کامنز کی اسپیکر لنڈسے ہوئل ارکانپارلیمنٹ کے غصے کی وجہ سے بظاہر پریشان نظر آئیں، اسپیکر قرارداد پر وسیع تر بحث کی خواہش رکھتی تھیں تاکہ گرما گرمی کا ماحول اسرائیل کے خلاف استعمال نہ ہوسکے، اسکاٹش نیشنل پارٹی کے پارلیمانی رہنما اسٹیفن فلن نے اس بے عزتی کی مذمت کی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے، جب کہ اسپیکر لنڈسے ہوئل کی تقریر کے دوران ہاؤس آف کامنز کے دونوں اطراف سے ان کے استعفیٰ کے مطالبات اٹھ رہے ہیں، نمائندوں کے درمیان کئی آوازیں اٹھیں کہ یہ مسئلہ مشرق وسطیٰ کے بحران پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ایوانِ میں بحث کا موضوع بن گیا۔
1 تبصرہ
برطانیہ وہ ملک ہے جس نے صیہونی ریاست قائم کی یہ کبھی فلسطینیوں کی حق کی بات نہیں کرئے گا، عیسائی حکومتیں اس انتظار میں ہیں کہ وہ وقت آئے جب یہودیوں کو سرزمیں فلسطین سے باہر کیا جائے اور وہاں صلیبیوں کی حکومت قائم ہو، اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی مسلمان دربدر ہوجائیں اور اس کے بعد یہودیوں کو وہاں سے نکالنے کی راہ ہموار ہو