وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے صدر سردار اختر مینگل سمیت متعدد رہنماؤں کے خلاف اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں ہڑتال کی گئی، اسلام آباد پولیس نے پارٹی کے سابق ایم پی اے اختر حسین لانگو اور شفیع مینگل کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کے بعد گرفتار کیا تھا، جنہیں گزشتہ روز مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا، پارٹی رہنماؤں کی گرفتاری و مقدمات کے خلاف مختلف علاقوں میں ہڑتال و احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی تھی، ہڑتال کی کال بی این پی۔ مینگل و دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی تھی، جس میں پی ٹی آئی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، جے یو آئی شیرانی، جے یو آئی(نظریاتی) اور جمہوری وطن پارٹی شامل ہیں، انجمن تاجران نے بھی مظاہرین کیساتھ اظہار یکجہتی کے لئے حمایت کا اعلان کیا تھا، کوئٹہ میں تمام دکانیں، کاروباری مراکز اور بازار بند رہے تاہم ہوٹلوں، میڈیکل اسٹورز اور بیکریوں کو کھلا رکھا گیا، تاہم کوئٹہ کے متعدد علاقوں بشمول سپنی روڈ، شہباز ٹاؤن، جناح ٹاؤن اور ویسٹرن بائی پاس میں جزوی ہڑتال کی گئی۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ، سوراب، نوشکی، مستونگ، قلات، خضدار، خاران، پنجگور، ژوب اور قلعہ سیف اللہ میں تمام چھوٹے اور بڑے کاروباری مراکز بند رہے جبکہ کوئٹہ اور دیگر قصبوں کی سڑکوں پر ٹریفک بہت زیادہ کم رہی، اسلام آباد انسداد دہشت گردی کے عدالت نے بی این پی رہنماؤں پر سینٹ میں تشدد اور اسلحہ کی نمائش کا الزام عائد کرتے ہوئے مزید دو دن کی جسمانی ریمانڈ کی منظوری دیتے ہوئے پولیس کے حوالے کردیا ہے، اسلام آباد میں پارٹی رہنماؤں پر مقدمات اور گرفتاریوں کے خلاف بی این پی کی جانب سے احتجاجی مظاہروں اور ہڑتال کی کال دے دی گئی تھی جہاں اس سے قبل مختلف شہروں میں بی این پی کی جانب سے ریلیاں نکالی گئی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے رہنماؤں نے پارٹی قیادت کے خلاف جعلی الزامات کے تحت مقدمات درج کرنے پر وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے عوام نے مقدمات کو مسترد کر دیا ہے، مزید کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ایسے اقدامات ناقابل قبول ہیں۔