اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیکس کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) کی جانب سے جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی متفرق درخواستیں خارج کردیں، عدالت عالیہ نے تینوں اداروں پر پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا جبکہ مذکورہ تمام فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا بھی عندیہ دیا ہے، جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل سے اہم مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی متفرق درخواستیں دائر کرنے کا مقصد عدالتی کارروائی کو شرمندہ کرنا ہے، ہم اور آپ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں، بالکل سمجھ رہے ہیں، اگر ایگزیکٹو ججز کو دھمکائے اور ججز توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کریں تو وہ مفاد کا ٹکراؤ کیسے ہے ؟ کیا جج ذاتی مفاد کے لئے توہینِ عدالت کی کارروائی کرے گا؟ کیا عدالت آئی بی اور ایف آئی اے کے سارے کیسز سننا چھوڑ دے؟
واضح رہے 27 اپریل کو آڈیو لیکس کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس بابر ستار کی جانب سے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کے بعد پاکستان کے اہم اور مقتدر وفاقی ادارے اس کیس کی سماعت سے جسٹس بابر ستار کو الگ کرنے کیلئے کوششیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں، انٹیلی جنس بیورو، ایف آئی اے، پی ٹی اے اور پیمرا نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں متفرق درخواست میں کہا گیا کہ اختلافی فیصلے سے بچنے کے لئے آڈیو لیکس کی درخواستوں پر سماعت کرنے والے جسٹس بابر ستار کیس سے الگ ہو جائیں اور اس مقدمے کی سماعت وہی بینچ آگے بڑھائے جو پہلے اسی نوعیت کی دوسری درخواست پر 2021 میں فیصلہ کرچکا ہے