اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا، جسٹس محسن اختر کیانی صدر مملکت کے فیصلے کو چیلنج کریں گے، ذرائع نے بتایا کہ جسٹس محسن اختر کیانی اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی سے متعلق صدر مملکت کے فیصلے کو چیلنج کریں گے، ذرائع کا کہنا ہے کہ قانونی مشاورت مکمل ہونے پر صدر کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی جائے گی، واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے گزشتہ ماہ 19 جون کو 3 ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کر دی تھیں، عدالت نے 3، 2 کے تناسب سے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے، عدالت نے صدر پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ فوری طور پر نوٹی فکیشن کے ذریعے یہ واضح کریں کہ آیا ججز کی منتقلی مستقل ہے یا عارضی، اور ان کی سینیارٹی کا تعین ججز کے سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد کیا جائے، بعدازاں صدر مملکت نے 29 جون 2025 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا سینئر ترین جج ڈکلیئر کر دیا تھا جبکہ جسٹس سرفراز ڈوگر اور دیگر 2 ججز کا تبادلہ بھی مستقل قرار دے دیا تھا، صدر مملکت نےٹرانسفر ججز کی تقرری کو درست قرار دیا تھا، صدر مملکت آصف علی زرداری نے جسٹس محسن اختر کیانی کو سینئر پیونے جج قرار دیا تھا۔
بعدازاں یکم جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، جسٹس جنید غفار کو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، جسٹس عتیق شاہ کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ، جسٹس روزی خان کو چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی، 7 جولائی کو وزارت قانون نے صدر مملکت کی منظوری کے بعد چاروں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی تعیناتی کے نوٹیفیکیشن جاری کیے تھے جبکہ 8 جولائی کو چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا تھا۔
پاکستان میں عدلیہ اور انتظامیہ کے اختلافات ہمیشہ مرکزی مسئلہ کے طور پر موجود رہے مگر حالیہ برسوں میں عدالتی ادارہ خود بحران کا شکار ہو چکا ہے، 20ویں آئینی ترمیم کے بعد ججز کی تقرری کے عمل، آئینی اختیارات کی تشریح کیلئے علیحدہ فورم کا قیام جسے آئینی عدالت کہا گیا اور اعلیٰ عدلیہ کے اندرونی اختلافات نے صورتِ حال کو مزید الجھا دیا ہے، عدالتی بحران محض ایک ادارہ جاتی مسئلہ نہیں بلکہ ریاست کے توازن، آئین کی بالا دستی، اور جمہوریت کے تسلسل کیلئے خطرہ بن چکا ہے، 20ویں ترمیم کے بعد ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کے بجائے صوابدید کا پہلو غالب آگیا، جس نے اعلیٰ عدلیہ میں اندرونی تقسیم کو جنم دیا، ججز کی تعیناتی میں پسندیدہ ناموں کو ترجیح اور سینئر ججز کو نظر انداز کرنا اختلافات کا باعث بنا، پاکستان کا عدالتی بحران محض ججز یا چیف جسٹس کی سطح کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک آئینی، سیاسی، اور ادارہ جاتی بحران ہے جو اگر فوری طور پر حل نہ ہوا تو ریاست کی بنیادیں ہلا سکتا ہے، وقت آگیا ہے کہ عدلیہ اپنے اندر جھانکے مزید یہ کہ شفاف، آزاد اور غیر جانبدار ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرے۔
منگل, نومبر 18, 2025
رجحان ساز
- پاکستان کے درآمدی بل میں اضافہ چار ماہ کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا
- سندھ میں دینگی بے قابو انتظامی سطح پر ہنگامی اعلانات ستمبر میں محکمہ موسمیات کا ڈینگی الرٹ جاری
- انٹرپول نے تحریک انصاف کے رہنما مونس الہی حوالگی کی درخواست مسترد شواہد کی کمی وجہ بتادی !
- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رام کرنے کیلئے پاکستانی حکومت قومی خزانے سے بھاری قیمت ادا کی ہے
- پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت میں کار بم دھماکہ 12 افراد جاں بحق 27 زخمی ہوئے
- ہندوستانی دارالحکومت کے ریڈ زون میں لال قلعہ کے قریب دھماکہ نئی دہلی اور ممبئی میں ہائی الرٹ
- علاقائی تبدیلیوں کے تناظر میں ایرانی اسپیکر کا دورۂ پاکستان کیا باہمی معاہدوں پر عمل درآمد کیا جائیگا
- غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف موقف نے ممدانی کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا !

