امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے, میڈیا رپورٹ کے مطابق حافظ نعیم الرحمٰن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے عوام آئین و قانون کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کی تقرری چاہتے ہیں، آئین کے مطابق جس کی باری ہے اسی کا تقرر کیا جائے، انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن 3 ماہ پہلے ہی جاری ہوگیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے، مجوزہ آئینی ترمیم مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، برسر اقتدار ٹولہ مرضی کا چیف جسٹس لاکر مرضی کے فیصلے لینے کا خواہش مند ہے، امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کی حمایت کرنے والے اپنے چہرے پر کالک ملیں گے، ماضی میں قوم افتخار چوہدری کے لئے کھڑی ہوئی مگر انہوں نے عدل نہیں کیا، دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے بانی سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 63-اے سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار دے کر فلور کراسنگ کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔
اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت میں کرپشن ریفرنس کی سماعت میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ حکمران اشرافیہ اقتدار میں رہنے کے لئے قانون کی حکمرانی اور جمہوریت پر سمجھوتہ کر رہی ہے، مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 8 ججوں نے وضاحت کی کہ پارٹی کے انتخابی نشان پر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا فیصلہ متعصبانہ تھا، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا اور ’فراڈ الیکشن‘ کو مبینہ طور پر عدلیہ نے تحفظ فراہم کیا، سابق وزیراعظم نے چیف الیکشن کمشنر کو خبردار کیا کہ انجینئرڈ الیکشن کے لئے ان پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے 3 انٹراپارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا لیکن مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے انٹراپارٹی انتخابات کے معاملے میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا کوئی نہیں پوچھتا۔