تحریر: محمد رضا سید
پاکستان میں اس وقت درپردہ بعض پرائم جنرلز اور خفیہ ادارے کے اعلیٰ حکام حکومت کررہے ہیں، انتخابی نتائج میں من مانی تبدیلیوں سے وجود میں آنے والی پارلیمان اور حکومت اپنی کمزوریوں سے واقف ہونے کی وجہ سے بلیک میل ہورہی ہے اور احکامات کو من وعن تسلیم کرتی جارہی ہے، میڈیا پر شب خون مارا جاچکا ہے، عدلیہ کے ایک حصّے کو جابرانہ نظام کے ماتحت کرلیا ہے، سوشل میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں پر بوڑھے سامراج کی مسلط کردہ ملوکیت پر مبنی نظام شاہی کی طرف ڈھکیل رہی ہے، پاکستان کی سیاست میں عام لوگوں کی شمولیت کا بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہے، جسکا گلا گھوٹنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لئے حکومت قومی سطح پر ایک فائر وال نصب کرنے جا رہی ہے، اس پر کم ازکم 60 ارب روپے پاکستانی عوام کے لگائے جاچکے ہیں مطلب یہ کہ جس رسّی سے عوام کو پھانسی چڑھانی ہے وہ رسّی بھی اُن کے جیب سے نکالی گئی ہے، سوشل میڈیا کا گلہ گھوٹنے کیلئے عوام میں نامقبول سیاسی قیادت سول اور فوجی بیوروکریسی کی ہمنواء بنی ہوئی ہے حالانکہ حکومت ہاتھ سے نکلنے کے بعد یہی لوگ کف افسوس ہی ملتے ہوئے دکھائی دینگے، جاگیرداروں کیساتھ ملکر مقتدرہ انٹرنیٹ کو مانیٹر کرنے کیلئے جو فائر وال نصب کررہی ہے وہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے فیس بک، ایکس(سابق ٹوئٹر)، یوٹیوب اور دیگر سائٹس کو کنٹرول کیا جا سکے گا، اس فائر وال کی مدد سے عوام کی آواز کو دبایا جاسکے اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریسز فوری طور پر حکومت کو دستیاب ہوں گے اور ان کے خلاف کارروائی کی جاسکے گی، گہری راتوں کو ڈالے پر آنے والے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پائمال کرتے ہوئے بیگناہوں کو لاپتہ کرتے پھریں گے۔
آزادی اظہار کو مشکل بنائے والے قوانین موجود ہوں تو قانون نافذ کرنے والوں کی وردیوں میں موجود کالی بھیڑوں کو بھی مال بنانے کا موقع مل جائے گا، ایسے معاشرہ کو وجود بخشا جارہا ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور کی یادوں کو تازہ کردے گا اگر اُس وقت انٹرنیٹ ہوتا تو انگریز سرکار یہی کچھ کرتی، عمران خان درست کہتا ہے ہمیں گوروں سے آزادی نہیں ملی بلکہ اُنھوں نے کالے انگریزوں کے ہاتھوں ہمیں فروخت کردیا ہے، سوشل میڈیا سے نفرت صرف پاکستان کی مقتدرہ اور حکومت کو نہیں ہے ہندوستان میں بھی سوشل میڈیا پر قدغنیں لگائی گئی ہیں، پاکستان کے حکومتی ذریعے کے مطابق یہ فائر وال سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی طرز پر کام کرے گا جہاں ریاست کسی بھی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرتی ہے، اطلاعات ہیں کہ فائر وال کا یہ نظام چین سے لیا گیا ہے، اس کے لئے کتنی ادائیگی کی گئی ہے اور یہ کس طرح کام کرے گا؟ اس بارے میں فی الحال معلومات سامنے نہیں آ سکی ہیں، چند روز قبل وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے سے متعلق قانون سازی کا عندیہ دیا تھا، انٹرنیٹ پر آزادئ اظہار کے لیے کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور بنیادی حقوق سے متعلق کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے اظہارِ رائے پر پابندیوں میں اضافہ ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ای کامرس اور دیگر شعبے بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔
فائر وال سسٹم بنیادی طور پر انٹرنیٹ گیٹ ویز پر لگایا جاتا ہے جہاں سے انٹرنیٹ اپ لنک اور ڈاؤن لنک ہوتا ہے، اس کا مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرنا ہوتا ہے، اس فائر وال کی مدد سے ناپسندیدہ ویب سائٹس، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور مخصوص مواد کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، ایسے کسی بھی مواد کو فائر وال کی مدد سے بلاک کیا جاسکتا ہے، اس نظام کی مدد سے کسی مواد کے ماخذ (اوریجن) یعنی جہاں سے اس کا آغاز ہوا ہو، اس بارے میں بھی فوری مدد مل سکتی ہے اور آئی پی ایڈریس سامنے آنے کے بعد مواد کو بنانے والے کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے، ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم بولو کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ فائر وال سسٹم کا بنیادی مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرنا ہوتا ہے، ایک غیرملکی میڈیا ہاؤس ست بات چیت کرتے ہوئے فریحہ عزیز نے کہا کہ اب زیادہ تر انٹرنیٹ ٹریفک انکرپٹڈ ہوتی ہے تو اگر ایسا اقدام کیا جاتا ہے تو پہلے انٹرنیٹ ٹریفک کو ڈی کرپٹ کرنا پڑے گا جس سے ای کامرس بری طرح متاثر ہوگی اور انٹرنیٹ بینکنگ پر بھی اثر پڑے گا، اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اور پرائیویسی بھی بے حد کمزور ہو جائے گی، فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ ماضی میں پی ٹی سی ایل اور دیگر انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز کے پاس فائر وال لگائی گئی تھی اور اب گیٹ ویز پر یہ فائر وال نصب کی جا رہی ہے، فریحہ عزیز نے کہا کہ انٹرنیٹ ٹریفک کو ڈی کرپٹ کرنے کی صورت میں بینکس بھی خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں کیوں کہ ان بینکس کی آن لائن سروسز استعمال کرتے ہوئے پاس ورڈ اس فائر وال کو کنٹرول کرنے والے کے پاس ظاہر ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ ڈی کرپٹ ہونے کے بعد کسی ہیکر کے لیئے بھی اس سائٹ تک رسائی زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔
پاکستان میں انٹرنیٹ پر پابندیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں اور حکومت کسی بھی موقع پر ملک بھر میں انٹرنیٹ تک صارفین کی رسائی کو بند کرتی آئی ہے، خاص طور پر موبائل فون کمپنیز کے ڈیٹا کو بند کرنا ایک عام سے بات بن چکی ہے، آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں بھی موبائل فون صارفین انٹرنیٹ سے محروم رہے تھے، اس کا نتیجہ انتخابی نتائج میں من مانی تبدیلیاں کرکے پاکستان کے مقبول ترین لیڈر عمران خان کا راستہ روکنا تھا کیونکہ وہ ڈیل کیلئے تیار نہیں تھے، فائر وال کے ٹیکنیکل ادراک سے تو بولو کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز نے مناسب طور پر آگاہ کردیا مگر اس کے سیاسی پہلوؤں کے ادراک سے بھی باخبر ہونے کی ضرورت ہے، پاکستان ترقی پذیر ملکوں کی فہرست سے بھی خارج ہوچکا ہے، کرنسی کو مصنوعی طریقوں سے کنٹرول کیا جارہا ہے، عوامی فلاح و بہبود کے متعلق سوچ ختم ہوگئی ہے ترقیاتی بجٹ بالحاظ آبادی نہ ہونے کے برابر ہے، سرکاری اخراجات کو کم کرنے کیلئے کوئی راہ نکالنے کیلئے تیار نہیں ہے، سرکاری ادارے اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ایسے میں ہمیں خود اپنے ملک پاکستان کی فکر کرنی ہوگی، پاکستان کے عوام کو اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا ہوگی اپنی رازداری کی حفاظت کرنا ہوگی ورنہ زیادہ سے زیادہ طاقت رکھنے کی خواہش رکھنے والی قوتیں عوام کی زندگی کو جہنم بنادیں گے، حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انٹرنیٹ ایک دنیا ہے جس پر اجارہ داری ممکن ہی نہیں ہے۔