تحریر: محمد رضا سید
پاکستان کے حقیقی اور سیاسی حکمراں خوفذدہ ہوکر مضبوط حصار میں چلے گئے ہیں، قوم سڑکوں پر ہے، پاکستان جن مشکل صورتحال کا سامنا کررہا ہے، اُسکا تقاضہ ہے کہ جلد مذاکرات کا دروازہ کھولا جائے کیونکہ احتجاج کا فائنل راؤنڈ ایک روزہ نہیں ہے جب بھی راستے کھلیں گے لوگ اسلام آباد میں داخل ہوجائیں گے، پی ٹی آئی کے بانی عمران خان مطالبات کی منظوری تک احتجاج کال آف نہیں کریں گے، اگر احتجاج کے فائنل راؤنڈ نے طول پکڑا تو ملک ڈیفالٹ ہوجائیگا، زرداری، شہباز اور طاقتور جنرلز نے پنجاب اور اسلام آباد کو فی الحال مکمل طور پر بند کرکے عوام کی بڑی تعداد کو اسلام آباد میں داخل ہونا مشکل بنادیا گیا ہے البتہ لوگوں نے سڑکوں پر نکلنا شروع کردیا ہے، سرکاری حکام اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور پنجاب کو زیادہ دنوں کیلئے بند کرنا ممکن نہیں ہوگا عوام راستے کھلتے ہی اسلام آباد پہنچیں گے یہ احتجاج ایک دو دن نہیں ہفتوں جاری رہ سکتا ہے، صوبہ خیبر پختونخواہ سے آنے والا جلوس کافی چارچ ہے جو 24 نومبر2024ء کی شب کو پنجاب کی سرحد پر پہنچے سکے گا، جہاں سے اس جلوس کو پنجاب کی حدود میں داخل ہونے سے بزور طاقت روکا جائے گا، جہاں جھڑپوں کے امکانات قوی ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر پاکستان کے سیاسی مستقبل کے تعین کیلئے اس احتجاج کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے، اُنھوں نے ذاتی منفعت کے بجائے قومی مطالبات کو احتجاج ختم کرنے کی بنیاد بنایا ہے، مطالبات میں فروری 2023ء کو عوام کے مینڈیٹ کی چوری کا حساب لینا، بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور 20 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ ہے، واضح رہے کہ اس ترمیم نے پاکستان کے نظام انصاف میں خلل ہی نہیں پیدا کیا بلکہ انصاف فراہم کرنے والے ادارے میں نفاق کا بیج بودیا ہے۔
بین الاقومی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں داخلی اور خارجی راستے سیل، احتجاج کے پیش نظر جڑواں شہروں میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی جبکہ ملک بھر میں انٹرنیٹ کو ضعیف کردیا ہے، فسطائیت عام دکھائی دے رہی ہے، مارشل لاء سے زیادہ بری صورتحال نظر آرہی ہے، تحریک انصاف رہنماؤں اور کارکنان کو حراست میں لئے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے، حکومت نے خیبر پختونخوا سے پاکستان تحریکِ انصاف کے آنے والے قافلوں کو روکنے کے لئے اٹک خورد کے مقام پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی سرحد مکمل طور پر بند کر دی ہے، عوام کے آیک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرنے کے آئینی حق پر پابندی عائد ہے جبکہ وفاقی حکومت کے ادارے نیکٹا نے پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کو متاثر کرنے کیلئے ایک روز قبل احتجاجی عوام کے خلاف دہشت گردی کا خطرہ ظاہر کیا تھا حالانکہ پاکستان میں دہشت گردی ایک عام سی بات ہے جب تک بڑوں کا ہاتھ دہشت گردوں کے سروں پر نہیں ہوتا دہشت گردی بھی نہیں ہوتی، پاراچنار کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کوئی نہیں بات نہیں ہے، خیبرپختونخواہ کے سابق سیکریٹری اقتدار علی مظہر مرحوم نے 1986ء میں کراچی پریس کلب میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ پارا چنار اور گلگت میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف منظم دہشت گردی میں ایجنسیاں ملوث ہیں، اُس وقت ملک پر جنرل ضیاء کی فوجی حکومت مسلط تھی، افغان اشو نازک مرحلے میں داخل ہوچکا تھا لہذا اُس وقت یہ بات سمجھ میں آگئی لیکن اب ملک کی پرائم ایجنسی پر شیعہ مسلمانوں کے قافلے پر خونی حملے کا الزام لگ رہا ہے اور الزام لگانے والے عام لوگ نہیں اندر کے لوگ ہیں، یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے تضادات سے بھرپور پاکستان کے لوگوں کو ایک زنجیر میں باندھ دیا تھا، اگر عمران خان کو ناکام بنانے کیلئے مذموم کوششیں ہورہی ہیں تو یہ پاکستان کیلئے کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔
پارا چنار کے عوام کو دہشت گردوں کے سپرد کرنے کا مطلب ریاستی اداروں کی کھلی ناکامی ہے جسکی ذمہ داری اداروں کو لینا ہوگی، پارا چنار دہشت گردی کے واقعات اور پشاور تک زمینی سفر کے غیر محفوظ ہونے کے مسئلہ حل کرنے کیلئے سابق آرمی چیفس نے مقامی لوگوں کے مطالبے پر پارا چنار سے پشاور تک سبسڈی ہوائی سروس شروع کرنے، کی یقین دہانی کرائی تھی تاکہ وہاں کے لوگوں کو پشاور تک محفوظ سفر کی سہولت مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا تو ذمہ داروں کون ہے، پارا چنار میں ایئرپورٹ موجود ہے جو پاراچنار ایئرپورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ ایئرپورٹ 1970 کی دہائی میں بنایا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد مقامی لوگوں کو ہوائی سفر کی سہولت فراہم کرنا تھا تاہم، بدقسمتی سے یہ ایئرپورٹ کئی دہائیوں سے غیر فعال ہے اور اس سے کوئی باقاعدہ تجارتی پروازیں نہیں چل رہیں، ایئرپورٹ کے غیر فعال ہونے کی بنیادی وجوہات میں سہولیات کا فقدان، فلائٹس کی کمی اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونا شامل ہیں، جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ پارا چنار کے لوگوں سے وعدہ کرکے آئے تھے کہ ہوائی سروس جلد شروع ہوگی مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو اور جنھوں نے وعدہ کیا تھا وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اب اگر حکومت کو پی ٹی آئی کے خلاف مذموم سازشوں سے فرصت ملے تو پارا چنار ائیرپورٹ کو فعال کرنے پر توجہ دیں۔