اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار اراکین قومی اسمبلی شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی، نسیم شاہ، احمد چٹھہ و دیگر کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، سماعت کے دوران پراسیکیوٹر جنرل ایف آئی آر پڑھ کر سنانا شروع کی چیف جسٹس عامر فاروق نے دلچسپ ریمارکس دیتے ہوئے کہا اس ایف آئی آر کا لکھاری بھی دلچسپ ہے، یہ اسلام آباد پولیس ہے یا رضیہ ہے جو غنڈوں میں پھنس گئی ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید ریمارکس دیے کہ کریڈٹ دینا ہوگا کہ بڑے عرصے بعد اچھی کامیڈی دیکھنے کو ملی ہے، جس نے بھی یہ ایف آئی آر لکھی اس نے اچھی کامیڈی لکھی ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ میں نے دیکھا ہے جسمانی ریمانڈ کے تمام آرڈرز ایک جیسے ہی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریاست آگئی ہے، ریاست کو جواب دینے دیں کہ ایسا کیا ہو گیا تھا کہ 8،8 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا؟ یہ تو ایسا عمل ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہوگی۔
جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی رہنماؤں سے متعلق ریمارکس میں کہنا تھا کہ شعیب شاہین پر پستول ڈال دی، شعیب شاہین کو میں نہیں جانتا، گوہر علی خان کہہ رہے ہیں کہ پستول نکال لی، گوہر علی خان کو آپ اور میں نہیں جانتے، کامیڈی آپ نے پڑھ لی، اب اِن سے کیا برآمد کرنا ہے؟، اس پر پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت میں بتایا کہ شعیب شاہین سے ڈنڈا برآمد ہو گیا ہے، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی، کمرہِ عدالت بھی قہقہوں سے گونج اٹھا، دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیر افضل مروت سے پستول برآمد ہو گیا ہے، اس مقدمے میں مضحکہ خیز قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں اور 8 دن کا ریمانڈ دے دیا، فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے ارکان اسمبلی و دیگر کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف کیس کا فیصلہ کالعدم بر قرار رکھتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔