تحریر: محمد رضا سید
غزہ میں بے گھر لوگوں کو پناہ دینے والے اسکول پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے میں 100 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں، اس اندوہناک واقعے کی دنیا بھر میں زبانی مذمت کی جارہی ہے لیکن دنیا کے طاقتور ممالک اسرائیل سے پوچھنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل کیوں نہیں کررہا ہے؟ ہفتے کے روز اسرائیل کے ایک بار پھر اسکول کو اپنی بمباری کا نشانہ بنایا، اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں اسکول میں پناہ گزین بچے اور عورتیں بھی شہید ہوئیں اِن میں دو ماہ سے لیکر 2 سال تک کے بچوں کی تعداد 23 تھی جو اپنی ماؤں کی گودوں میں جاں بحق ہوگئیں، دنیا دار حکومتوں کو معلوم ہی نہیں یہی بچے خدا سے فریاد کریں گے انہیں کس جرم میں مارا گیا، الہداء ایک بچی ہے جس کی عمر صرف 5 سال ہے وہ لاشوں کے درمیان اپنی ماں کو تلاش کررہی تھی اسکے والد اور 12 سال سے کم عمر کے دو بھائی دسمبر 2023ء کے وحشتناک اسرائیلی بمباری میں شہید ہوچکے تھے، غزہ پر جارحیت کے دوران مارے گئے زیادہ تر فلسطینیوں کا جرم یہ تھا کہ وہ مزاحمتی تحریک حماس کے انتظام علاقوں میں زندگی گزار رہے تھے، امریکی نائب صدر اور ڈیموکریٹس کی صدارتی اُمیدوار کمالا ہیرس نے ہفتے کو غزہ میں اقوام متحدہ کے زیرانتظام اسکول کی عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہری جانوں کے ضیاع کی مذمت کی ہے، ایریزونا میں ایک مہم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو حماس کے پیچھے جانے کا حق ہے لیکن ان پر شہری اموات سے بچنے کی ایک اہم ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے، پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے اسکول پر حملہ بربریت ہے جس کی کوئی تاریخی نظیر نہیں ملتی، وزیراعظم نے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ جاری اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے، اُنھوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی قیادت اور اس کی مسلح افواج کو فلسطینیوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم کا جوابدہ ٹھہرائے، دنیا کو اسکولوں کی تباہی کے پیچھے اسرائیلی سوچ پر بھی غور کرنا چاہیے، اسرائیل صرف فلسطینیوں کی نسل کشی کی اپنی مہم کو تسکین پہنچانے کیلئے حملے کررہا ہے یا اس کا ایک مقصد فلسطینی بچوں کو کافی عرصے تک علم سے دور رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اسرائیل جارحیت کے نو ماہ کا جائزہ کیا جائے تو اسرائیل زبردست خسارے میں رہا ہے، حماس کے زیرزمین بسائے گئے شہر تک اسرائیلی فوج نہیں پہنچ سکی، اسرائیل کے شعبدہ باز وزراء داخلی بے چینی کو کم کرنے کیلئے دعویٰ تو کرتے ہیں کہ حماس کے 70 فیصد جنگجوؤں کا خاتمہ کردیا گیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلانٹ نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے 98 فیصد جنگجوؤں کو اسرائیلی فورسز نے ہلاک کردیا ہے، اگر گیلانٹ کی بات درست مان لی جائے تو اسماعیل ہنیہ کی تہران میں شہادت کے بعد ہیبرون اور دیگر اسرائیلی شہروں میں یہودی تنصیبات کو نشانہ بنانے والے کیا فرشتے تھے جو اہل یہود سے ناراض ہیں، عالمی سطح کے جنگی ماہرین اور دفاعی مبصرین سمیت اسرائیلی فوج کی قیادت اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ حماس کو ختم نہیں کیا جاسکتا، اسرائیلی اُس وقت تک پُرامن زندگی نہیں گزار سکتے جبتک فلسطینیوں کو اُن کا وطن واپس نہیں کیا جاتا،جنگ کو اب دس ماہ مکمل ہوچکے ہیں، اسرائیلی شہری ایک نارمل زندگی نہیں گزار رہیں ہیں، خوف اور غیر محفوظ ہونے کے صدمے نے اسرائیلیوں کی ایک بڑی تعداد کو نفسیاتی الجہنوں میں مبتلا کردیا ہے، ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل کے علاج کیلئے مقامی طور پر ڈاکٹرز کی شدید کمی ہوچکی ہے، جس کے بعد اسرائیلی وزرات صحت نے یورپ، کینیڈا اور امریکہ سے نفسیاتی ڈاکٹروں کو بھرتی کیا ہے تاکہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کا نفسیاتی علاج ہوسکے، اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے 70 ہزار فوجیوں کا نفسیاتی علاج کیا گیا جو اب فوجی خدمات انجام دینے کے قابل نہیں رہے، جس کی وجہ سے لازمی فوجی خدمات انجام دینے والوں کی کمی ریکارڈ کی جارہی ہے، یہ صورتحال اسرائیل کے قیام سے مئی 2024ء تک کبھی نہیں ہوئی تھی۔
اُدھر اسرائیل نے جنوبی غزہ کی پٹی کے شہر خان یونس میں راتوں رات انخلا کا نیا حکم جاری کیا ہے، جس سے ہزاروں فلسطینیوں کو اندھیرے میں اس وقت نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا، جب ان کے اردگرد کی فضا گولہ باری سے گونج رہی تھی، خان یونس میں اسرائیل کی جانب سے انخلا کی ہدایات میں مرکز، مشرق اور مغرب کے اضلاع کا احاطہ کیا گیا ہے، یہ اعلان ایکس پر اور رہائشیوں کے فون پر ٹیکسٹ اور آڈیو پیغامات کی صورت میں پوسٹ کیا گیا، آدھی رات کو سینکڑوں فلسطینی اپنے گھر اور پناہ گاہیں چھوڑ کر مغرب کی طرف المواصی اور شمال کی طرف دیر البلاح کی طرف بڑھے، جو پہلے ہی لاکھوں بے گھر افراد سے بھرے ہوئے تھے، اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 2.3 ملین افراد میں سے زیادہ تر بے گھر ہو چکے ہیں اور پٹی کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے، فلسطینی اور اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں کوئی محفوظ علاقہ نہیں ہے۔ مغربی خان یونس میں المواصی جیسے محفوظ زون کے طور پر نامزد کیے گئے علاقے پر اسرائیلی فورسز کی طرف سے کئی بار بمباری کی جا چکی ہے، معاشی طور پر بتدریج ضعیف ہوتا ہوا اسرائیل اس حوالے سے اپنی عوام کے غصّے کا سامنا کررہا ہے، اسرائیل کی معیشت اس وقت چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، 2023ء سے جاری غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کی معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے، ملک کا بجٹ خسارہ 6.6 فیصد تک پہنچ گیا ہے، اور عوامی قرضے کا تناسب بھی بڑھ کر تقریباً 67 فیصد ہوگیا ہے، اس کے علاوہ، شییکل کی قدر میں قابل ذکر کمی ہوئی ہے جو کہ اسرائیلی معیشت کی غیر یقینی صورتحال کو ظاہر کرتی ہے، سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ تعمیرات اور زراعت کے شعبے خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں کچھ ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال ملک کو ایک گہری کساد بازاری کی طرف لے جا سکتی ہے کیونکہ جنگ کی طویل مدتی غیر یقینی صورتحال معیشت پر مزید دباؤ ڈال سکتی ہے۔