پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ خیرات سے اسکول اور ہسپتال تو چل سکتے ہیں لیکن ملک نہیں اگر اس ملک نے ترقی کرنی ہے تو سب کچھ نجی شعبے کے حوالے کرنا پڑے گا، پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کچھ اصول اور قواعد کی بات کی تھی، ان کو دہرانا چاہوں گا، پہلی بات یہ ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9.5 فیصد ہے، یہ مستحکم نہیں ملک کو ریلیف چاہیے تو حکومت کا جتنا بوجھ ہے، اسے کم کرنا ہوگا، اس لئے ہمیں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو بتدریج 13.5 فیصد پر لے کر جانا پڑے گا،پہلے مرحلے میں تمام شعبے جو پہلے ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں نہیں تھے، انھیں اس میں لایا جائے، دوسرا یہ تھا کہ گذشتہ برس 39 کھرب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی، ہمیں اس چھوٹ کو ختم کرنا ہے،محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں ہم باقی سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لارہے ہیں، 31، 32 ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اور جولائی سے ان پر ٹیکس کا اطلاق ہوگا، انھوں نے کہا کہ ہم انفورسمنٹ اور کمپلائنس کی طرف جا رہے ہیں، سسٹم میں جو خامیاں ہیں، قوانین پہلے سے موجود ہیں لیکن ہم ان کو نافذ نہیں کر پا رہے، اس کے لئے ہمارے ٹیکس اتھارٹی کو بہتر کرنا پڑے گا، وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسی طرح ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو تمباکو کی صنعت کے شعبے سے شروع ہونا تھا، اس کے بعد چینی، کھاد، سیمنٹ اور دیگر سیکٹر میں جانا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، اس کی وجہ سے جو آمدنی ملنی چاہیے تھی نہیں مل سکی، انھوں نے کہا کہ ہمیں ان ساری چیزوں کا ادارک ہے اور ہم ڈیجاٹزیشن کر رہے ہیں تاکہ انسانی عمل و دخل کم ہو، اس کے نتیجے میں شفافیت آئے گی اور کرپشن کم ہو گی، ان کا کہنا تھا کہ کیوں لوگ ایف بی آر کے نیٹ میں نہیں آنا چاہتے؟ اس لئے نہیں آنا چاہتے کہ ہمیں ان اداروں کی جانب سے نوٹسز کے ذریعے ہراساں کیا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیر اعظم خود مانیٹر کر رہے ہیں کہ ہم آٹومیشن کی طرف کیسے جارہے ہیں کیونکہ یہ بہت اہم ہے، انھوں نے حکومتی اخراجات کم نہ کرنے سے تنقید پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے لیکن حکومتی اخراجات میں دو چیزیں ہیں، جس کے بارے میں ہمیں دیکھنا ہے اور اس کو آگے لے کر جانا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ جو سب سے آسان چیز ہے کہ جو شعبے صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، وہاں وفاقی حکومت کو وزارتیں بند کردینی چاہیں، ان محکموں کو ضم کردینا چاہیے تاکہ خرچہ کم ہو، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ریاستی ملکیتی ادارے ہیں، اس کا خسارہ کون برداشت کر رہا ہیں، عوام برداشت رہے ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری ملکیتی اداروں کو چلنے دیا جائے، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے 622 ارب روپے کے واجبات حکومت پاکستان کو منتقل ہوئے ہیں، انھوں نے کہا کہ اسی طرح ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کی بات ہے، اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ جولائی، اگست میں ہو جائے گی، اس کے علاوہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ کراچی اور لاہور کے ہوائی اڈوں بھی نجی شعبے کو دے دیں، وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر اس ملک نے آگے جانا ہے تو سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا پڑے گا، مزید کہنا تھا کہ اگر اس ملک کو ریلیف چاہیے، اور انشا اللہ ہم ریلیف دیں گے، تو حکومت کا جتنا بوجھ ہے، ہمیں اس کو کم کرنا ہوگا اور ہم اس کو کم کرنے جا رہے ہیں۔