تحریر: محمد رضا سید
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے!، یہ جون 2015ء کی بات ہے، جنرل راحیل شریف پاکستان آرمی کے چیف تھے اور سپریم کورٹ نے کراچی کی بدامنی کے حوالے سے سوموٹو نوٹس لیا ہوا تھا، کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے فوج کو اعلیٰ عدلیہ کی بھرپور حمایت تھی، پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم کی کراچی اور حیدرآباد سے جڑیں کاٹنے کیلئے فوج اور عدلیہ کے ابتدائی فیصلوں کو خوش آمدید کہا اور رینجرز کو پولیس کے اختیارات دلوانے کیلئے قانون سازی کردی، بادی النظر میں رینجرز فوج کے ایک شعبے کے طور پر فنکشن کرتی ہے مگر اسکا مینڈیٹ فوج سے مختلف ہوتا ہے، رینجرز کو پولیس کے اختیارات ملتے ہی ایم کیوایم کی دھوتی کھول دی گئی اور کچھ ایسا نہیں ہوا جس کا اندیشہ ساکنان شہر غریباں کو تھا ایم کیو ایم ریت کی دیوار ثابت ہوئی تو رینجرز نے پیپلزپارٹی کی طرف رخ کیا سندھ بلڈنگ اتھارٹی پر چھاپہ مارا گیا پیپلز پارٹی نیٹ ورک کے لوگ گرفتار ہونے لگے کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے، گھروں سے بڑی بڑی رقوم برآمد ہونا شروع ہوگئیں، زمینوں اور فلاحی اداروں پر قبضہ چھڑوایا جانے لگا تو 15 جون 2015 کو پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین آصف زرداری نے بڑی تیز آواز میں چیختےہوئے کہا ہمیں تنگ کیا گیا تو آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، سب کا کچھا چٹھا کھول دوں گا اور ایسی فہرست جاری کریں گے کہ پاکستان بننے سے اب تک کے جرنیلوں کی کردار کشی شروع ہوجائے گی اور پورا ملک ہل جائے گا، آرمی چیف کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم کھڑے ہوئے تو کراچی سے خیبر تک سب کچھ بند ہوجائے گا جو کسی کے کہنے پر نہیں کھلے گا۔
دنیا بھر کی افواج منظم ادارہ ہوتی ہیں مگر پاکستان کی فوج طاقت کے سرچشمہ ہے، سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غلط فہمی ہوگئی تھی کہ طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھ لیا تھا، زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات تو کردی مگر معافی تلافی کرنے کے بعد انہیں دبئی جلاوطن ہونا پڑا جبکہ اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نےبھی اُن سے منہ موڑ لیا اور کھانے پر بلاکر دعوت منسوخ کردی جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کو آصف زرداری کے پیچھے لگادیا جو فوج کی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کو گنوانے لگے، وقت گزرا جنرل راحیل شریف ڈالروں میں تخواہ وصول کرنے سعودی عرب پہنچ گئے اور اُن کی جگہ جنرل باجوہ نے سنبھال لی، باجوہ فوجی جنرل سے زیادہ سیاسی مدبر تھے جنھوں نے نوازشریف کے خلاف تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کو الگ الگ استعمال کیا، نوازشریف اُن کی کوششوں سے سیاست سے باہر نکال دیئے گئے، جنرل باجوہ کی فہم کا سابق وزیراعظم عمران خان ادراک نہ کرسکے عمران خان کرپشن ختم کرکے ملک کو آگے لے جانا چاہتے تھے جبکہ جنرل باجوہ کی نظر میں کرپشن ملک کی ترقی میں رکاوٹ نہیں تھی اور جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ تک یہ واضح نہیں کرسکے کہ پاکستان کی ترقی کا راز کیا ہے بلکہ انھوں نے زرداری اور نوازشریف سے ہاتھ ملالیا اور باجوہ نے وہ کیا جس نے پاکستان اور پاکستان کی عوام کو گہری کھائی میں گرا دیا۔
زمانے نے رنگ بدلہ اور مارچ 2024ء میں آصف زرداری صدر بن کر مسلح افواج کے کمانڈر انچیف بن گئے جس کی وہ 2015ء میں اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے، تبدیلی صرف صدر آصف زرداری کا خاصہ نہیں بلکہ ہماری بری فوج کی قیادت کی متحرک سیاسی سوچ کا بھی نتیجہ ہے، جو پہلے انہیں کرپشن کا بادشاہ کہتی تھی اور بحیثیت صدر انہیں سلوٹ مارے گی، پاکستان کی عوام تو، جی میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں پہلے چائے کے ہوٹلوں کی بیٹھکوں کے دوران اپنی بھڑاس نکالتیں تھے اب سوشل میڈیا پر یہ کام کرتے ہے، اسی لئے حافظ صاحب سوشل میڈیا کو شیطانی ہتھیار کہتے ہیں لیکن یہ بات ماننے کی ہے کہ ہماری بری فوج کی قیادت کو ملک اور ریاست کا درد کسی بھی شہری سے ناجانے کتنا گنا زیادہ ہوتا ہے، اسی لئے وہ سلوٹ مارنے والے کو نہیں دیکھتیں بلکہ اس کے پاس موجود عہدے کو سلام کرتی ہیں، 2008ء میں پیپلزپارٹی، ایم کیوایم، مسلم لیگ(ن)،جمعیت علمائے اسلام(ف) اےاین پی سمیت بلوچستان کی متعدد قوم پرست جماعتوں نے آئین کو جو نیا حلیہ دیا ہےاُس کے مطابق پاکستان کے صدر مملکت پاکستان کے پاس سزا یافتہ مجرمان کو معاف کرنے یا سزاؤں کو کم اور منسوخ کرنے کا اختیار ہے، اس کے علاوہ انھیں قانونی استشنیٰ حاصل ہوتا ہے، اُن پر قائم مقدمات کو عدالتیں نہیں چلاسکتیں، اس کا فائدہ تو آصف زرداری اپنی پہلی مدتِ صدارت میں اُٹھا چکے ہیں اب بھی کتنے ہی کیسز ٹائم بار ہونے کی وجہ سے ختم ہوجائیں گے اور معاف کرنے کا اختیار صدر کے زرداری صاحب کے پاس ہونا بھی خطرناک ہے باقی تو سب خیر ہے!۔
1 تبصرہ
یہ دس نمبری پاکستان کا صدر بن گیا اب پاکستان کا اللہ حافظ ہے، اسکو بنانے والے بھی یاد کریں گے کس ڈاکو کو صدر بنایا تھا