سندھ حکومت اور وفاق میں شہباز زرداری حکومت کے اختلافات مصنوعی اور بناوٹی لگتے ہیں تاکہ کم و بیش ایک سال سے برسراقتدار رہنے کے بعد پیپلزپارٹی اُن تمام گناہوں سے بری الذمہ ہوجائے جو اس دور میں عوام اور جمہوریت کیساتھ روا رکھے گئے اور کم از کم بلاول بھٹو کو نکالا جائے اور باور کرایا جائے کہ صوبہ سندھ کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے عدم تعاون نے برباد کیا ہے، پندرہ سالہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے کراچی سمیت پورے سندھ کو جس طرح نوچ نوچ کر کھایا ہے گد بھی اس طرح نہیں نوچتے ہیں، 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات کے نتائج میں رات گئے ہیر پھیر کرکے لائے گئی سیاسی قیادت کو عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے، موجودہ نظام فالج زدہ ہوچکا ہے کہیں کسی شعبے میں اچھے نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں، تین کروڑ سے زائد پاکستانی ایک سال میں مزید خط غربت سے نتیجے آچکے ہیں، سندھ میں پنجاب کی نسبت حالات مذید خراب ہیں، امن وامان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہیں، وزیراعلیٰ اور وزراء بغیر سکیورٹی کے اندرون سندھ سفر نہیں کرسکتے، پیپلزپارٹی سندھ میں گروہوں میں بٹتی نظر آرہی ہے، وزیراعلیٰ سندھ کیلئے شرجیل میمن اور سیدناصر حسین شاہ لابنگ میں مصروف ہیں، مراد علی شاہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیں مگر وہ مختلف لابیز سے مقابلہ کرتے کرتے تھک چکے ہیں، ایسے میں پیپلزپارٹی کی جانب سے وفاق سے اختلافات کا شوشہ چھوڑنا ایک مذموم سیاسی محرک ہے، بجائے سندھی عوام کی خیرخواہی کی کوششیں کو تیز کیا جاتا ایک بار پھر قومی تعصب کو ہوا دی جارہی ہے، 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق سے کسی بھی صوبے کا اختلاف بنتا نہیں ہے، اختیارات اور وسائل صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی ترقی کے آثار کراچی سے سکھر اور ٹھٹہ سے لاڑکانہ تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی کو تابوت میں رکھ دیا گیا اور جب صوبائی حکومت کو مسائل درپیش ہوتے ہیں تو یہ تابوت برآمد کرلیا جاتا ہے جو تعصب کو ہوا دینے کیلئے کافی ہوتا ہے، سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان مصنوعی اختلافات کو ظاہر کرنے کی سندھ حکومت کی کوششوں پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت میں ہلکی پھلکی موسیقی چلتی رہتی ہے کیونکہ 8 فروری 2024ء کے بعد قائم ہونے والا نظام سے پیپلزپارٹی زیادہ مستفید ہورہی ہے، ملک کے آئینی عہدے پیپلزپارٹی کے پاس ہیں، احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش معاشی بحران اور دہشت گردی کی لہر کا مقابلہ کرنے کے لئے محاذ آرائی کی نہیں اتحاد کی ضرورت ہے بادی النظر میں احسن اقبال مسلم لیگ(ن) کی طرف سے یہ کہہ رہے ہیں کہ جب مزے کے دن تھے تو خوب مونچیں کیں اب دلدل میں پھنس گئے ہیں تو ہاتھ چھوڑا کر خود باہر نکلنا چاہتے ہیں، کراچی میں صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاقی منصوبوں کی جانب توجہ دلائی ہے، سندھ میں وفاقی حکومت کے منصوبوں پر کام جاری ہے، سیلاب متاثرین کی بحالی میں وفاق اپنا حصہ ڈال رہا ہے، وفاق کی امداد سے چلنے والے منصوبوں کو رکنے نہیں دیں گے، احسن اقبال نے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان نے خطے کے ممالک کے ساتھ معاشی مقابلہ کرنا ہے، معیشت کو برآمدات کی حامل بنانا ہے، صنعت، زراعت، ٹیکنالوجی، تخلیقی صنعت کا فروغ ہماری ترجیح ہے، یہ سب اضسن اقبال کی خواہشات تو ہوسکتیں ہیں مگر حقیقت میں حکومت کی توجہ اس جانب مبذول ہی نہیں ہے، نوجوان بیروزگار ہیں، بڑے صنعت کار مختلف بہانوں سے ڈاؤن سائزنگ کررہے ہیں اور حکومت چاہے وفاقی ہو یا صوبائی دونوں ہی اس بحران سے لاتعلق ہیں۔
بین الاقوامی ادارے شاندش کے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان سے بیرون ملک جانے کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں 90 فیصد سے زیادہ بڑھ چکی ہے، جس کی طرف ہمارے نظام کے متوالیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھ رہے ہیں، احسن اقبال نے ناصر شاہ کیساتھ بیٹھ کر انہیں دلاسہ دیا کہ وفاقی حکومت صوبہ سندھ میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے بھرپور طریقے سے فنڈز جاری کرے گی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نکلنے کی سندھ کی کوششوں میں حصہ ڈالے گی، مسلم لیگ(ن) کی سیاسی ضرورت ہے تو احسن اقبال نے یہ کہہ دیا اگر صورتحال مختلف ہوتی تو وہ سندھ کو دیئے گئے مالی وسائل کا حساب کتاب مانگتے، سندھ حکومت اپنے مالی وسائل کو کس طرح خرچ کررہی ہے وہ سب کو معلوم ہے مال مفت دل بے رحم کا محاورہ یہاں صادق آتا ہے، اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کیساتھ ایم کیوایم پاکستان موجودہ نظام سے مستفید ہونے والی سیاسی قوتیں ہیں جھیں اُن تمام گناہوں کا حساب دینا ہوگا جو اِن کے ادوار میں روا رکھے گئے ہیں۔