قومی اسمبلی کا افتتاحی سیشن بلانے میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے اعتراض پر نگراں وزیر اعظم انوار کاکڑ نے صدر کو دوبارہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئے سمری ارسال کردی جبکہ یہ بھی باور کرادیا ہے کہ اگر سمری پر عمل نہیں کیا گیا تو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو اجلاس طلب کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے، خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب صدر عارف علوی کسی سمری کی منظوری میں رکاوٹ بنے ہوں اس سے قبل صدر عارف علوی نے متعدد موقعوں پر شہباز اور نگراں حکومت کی طرف سے بیجھی گئی ایک سے زائد غیر آئینی اور غیرقانونی سمریوں کو واپس کرچکے ہیں، پاکستان کی دھاندلی زدہ سیاسی جماعتوں کے قریبی ذرائع بتا رہے ہیں کہ صدر مملکت کی جانب سے اجلاس نہ بلانے پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے متبادل انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے بھی نگراں وزیر اعظم کو سمری ارسال کی ہے جو کہ وزارت پارلیمانی امور کی جانب سے دی گئی ہے تاہم یہ سمری واپس سیکرٹریٹ کو موصول ہوگئی، نگراں وزیر اعظم نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو آئینی ڈیڈ لائن گزرنے پر اجلاس بلانے کا اختیار دے دیا ہے جس پر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے آئینی ڈیڈ لائن پوری ہونے پر اجلاس بلانے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کا سیاسی بحران دن بدن اپنی بلندی کی طرف گامزن ہے، جس کے باعث ملک میں غیر یقینی کی صورتحال ہے، سرمایہ کار اور صنعت کار تذبذب کا شکار ہیں جبکہ تحریک انصاف کا راستہ روکنے کیلئے 8 فرواری 2024ء کے انتخابات میں تاریخی دھاندلی کے بعد پاکستان بھر میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے، نوجوان اپنے مستقبل سے خوفذدہ ہیں اور تعلیم یافتہ اور ہنرپیشہ افراد ملک چھوڑ رہے ہیں، جبکہ مقتدرہ پاکستان کو خیرآباد کہنے والے ذہین افراد کو روکنے کیلئے کچھ نہیں کررہی ہے، نگراں وزیراعظم انوار کاکٹر اپنے آپ کو فوج کا جنرل سمجھنے لگے تھے اور ایسے سوالات پر نہایت گھٹیا اور نازیبا جواب دیتے تھے، جس سے نوجوانوں میں مزید بے چینی اور مایوسی پیدا ہوئی، کراچی میں جرائم کی رفتار بتارہی ہے کہ جلد ہی شہر انارکی کی صورتحال دوچار ہوجائے گا، کراچی کا کوئی ایسا گھر نہیں جو لوٹ مار سے محفوظ رہا ہو، دہائیوں سے فوجی قیادت کی نگرانی میں رینجرز شہریوں کو جرائم پیشہ افراد سے نجات نہیں دلاسکی ہے، ساکنان شہر کی ہمتیں جواب دے چکی ہیں مگر اس شہر کا حقیقی میڈیٹ چوری کرلیا گیا ہے۔
ایوان صدر کے ایک سینیئر اہلکار نے غیرملکی میڈیا کو بتایا کہ صدر مملکت نے اِس بنیاد پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری منظور نہیں کی کیونکہ ابھی تک الیکشن کمیشن کی جانب سے سُنی اتحاد کونسل جو تحریک انصاف کے آزاد حیثیت سے کامیاب ہوکر ایوان میں پہنچنے والے ارکان پر مشتمل جماعت ہے کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی ہیں چنانچہ تکنیکی اعتبار سے یہ ایوان ابھی نامکمل ہے، دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سُنی اتحاد کونسل کی طرف سے مخصوص نشستوں کے حصول سے دائر کردہ درخواست پر سماعتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کا پانچ رکنی بینچ اس درخواست پر سماعت کر رہا ہے، فوجی مقتدرہ کے زیر سایہ اور دھاندلی زدہ سیاسی جماعتوں کا حمایت یافتہ الیکشن کمیشن بادی النظر میں تحریک انصاف کو خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشتیں دینے کیلئے تیار نظر نہیں آرہا ہے جبکہ تحریک انصاف اپنا حق سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے، واضح رہے کہ تحریک انصاف سے الیکشن کمیشن نے شناخت چھین لی تھی، اس کے باوجود عوام نے تحریک انصاف کو عوامی مینڈیٹ ملا، صدر ڈاکٹر عارف علوی آئین کی بالادستی کیلئے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا مشکل سے بھرپور راستہ ہے مگر درست راستہ ہے، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں ہی جماعتیں ملک کے اعلیٰ ترین آئینی عہدے پر متمکن صدر کو دھمکیاں دے رہی ہیں، ایک جماعت انہیں آئین کے آرٹیکل 6 کی دھمکی دیتی ہے اور دوسری جماعت صدر پر اور اُن کے خاندان کے افراد پر مقدمات کا سامنا کرنے کی دھمکی دیتی ہے۔
صدر عارف علوی شدید دباؤ کے باوجود ابھی تک آئین اور قانون کیساتھ کھڑے ہیں کب تک صدر طاقتوروں کے سامنے استقامت دکھاتے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، جہاں تک آئین اور قانون کی بات ہے تو اپریل 2022ء کے بعد آئین اور قانون کا جس طرح مذاق بنایا گیا وہ پاکستان کی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا، ایک ایٹمی ملک میں آئین اور قانون کی عدم بالادستی ریاست کی سلامتی کیلئے شدید خطرہ ہوتی ہے، پاکستان کے آئینی اور قانونی ماہرین کا صاف کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو مخصوص نشتیں الاٹ کرنے میں ہرگز رکاوٹ نہیں بننا چاہیئے لیکن طاقتور حلقے چاہتے ہیں کہ خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشتوں کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں تقسیم کر دی جائیں اور جس طرح تحریک انصاف کو واضح عوامی مینڈیٹ ملنے کے باوجود اقتدار سے باہر کردیا گیا ہے اسی طرح قومی اسمبلی میں مخصوص نشتوں سے محروم کردیا جائے، اس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہورہی ہے کہ طاقتور حلقے پاکستان میں سیاسی بحران کو باقی رکھنا چاہتے ہیں اور کسی نامعلوم ہدف کی طرف بڑھ رہے ہیں، پاکستان میں سیاسی بحران اتنا گھمبیر ہوتا جارہا ہے کہ اب فضل الرحمٰن جیسے اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے کہنے لگے ہیں کہ خدا نخواستہ پاکستان ڈوبتے جہاز کی طرح ہچکولے کھا رہا ہے۔