تحریر : محمد رضا سید
برطانوی اخبار دی گارڈین کی حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1999 میں انڈین ایئر لائنز کی پرواز 814 کی ہائی جیکنگ میں مبینہ طور پر ملوث زاہد اخوند عرف ظہور مستری کی پاکستان میں نقل و حرکت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے مبینہ طور پر انڈین خفیہ ادارے ’را‘ کی ایک اہلکار نے خود کو نیو یارک پوسٹ کا رپورٹر ظاہر کیا،اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انڈیا نے زاہد اخوند سمیت تقریباً 20 افراد کو پاکستانی سر زمین پر نشانہ بنایا، انڈیا کی وزارت خارجہ نے گارڈین کی اس رپورٹ کو جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا قرار دیا مگر جب اسی رپورٹ سے متعلق جب انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے پوچھا گیا تو انھوں نےاس بات کی تصدیق یا تردید تو نہیں کی مگر یہ ضرور کہا کہ اگر کسی پڑوسی ملک سے کوئی دہشت گرد انڈیا کو پریشان کرنے یا یہاں دہشت گرد کارروائیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مناسب جواب دیا جائے گا، انڈین ٹی وی نیوز نیٹ ورک 18 کو انٹرویو دیتے ہوئے انڈین وزیر دفاع نے کہا کہ اگر کوئی دہشت گرد یہاں کارروائی کرنے کے بعد بھاگ کر پاکستان جائے گا تو اسے پاکستان میں گھس کر ماریں گے، پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس بیان پر فوری ردعمل دیتے ہوئے اسے نہ صرف اشتعال انگیز قرار دیا بلکہ اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لئے اپنے ارادے اور صلاحیت پر قائم ہے۔
بیرون ملک ٹارگٹ کلنگ میں بھارت کا بحیثیت ریاست کے ملوث ہونے کا پہلا سرکاری انکشاف کینیڈا نے اُس وقت کیا جب فائیو آئیز انٹیلی جنس نیٹ ورک نے علیحدگی پسند سکھوں اور اِن کے رہنماؤں جن میں نمایاں طور پر ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کے ملوث ہونے کے نا قابل تردید شواہد پیش کئے، کینیڈا نے انڈین انٹیلی جنس ایجنسی را کے اسٹیشن چیف کو جو سفارتکار کے بھیس میں خفیہ سرگرمیوں میں ملوث تھا اپنے ملک سے نکال دیا جبکہ بھارت نے عارضی طور پر کینیڈین شہریوں کے لئے نئے ویزوں کا اجراء معطل کر دیا لیکن 25 اکتوبر 2023ء کو اپنے اس بیہودہ فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے ویزوں کا اجراء شروع کردیا، واضح رہے سکھ رہنما نجار کو اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر بھارت نے 2020ء میں دہشت گرد قرار دیدیا تھا، کینیڈا کی جانب سے بھارتی خفیہ ایجنسی کے واضح شواہد کے ساتھ قتل میں ملوث ہونے کی اطلاعات افشا ہونے کے بعد بین الاقوامی برادری کی توجہ ہندوستان کی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ( را ) پر مرکوز ہوئی تو معلوم ہوا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را بیرون ملک تخریب کاری، قتل اور حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے متعدد منصوبوں میں ملوث رہی ہے، اب یہ حقیقت خفیہ نہیں رہی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را جنوبی ایشیائی ملکوں کے انتخابی عمل میں مداخلت پر مبنی کئی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا چکی ہے، اس کی واضح مثالیں بنگلہ دیش اور پاکستان ہیں جہاں انڈین خفیہ ایجنسی را کا انتخابات پر اثرانداز ہونے کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔
امریکی تھنک بینک رانز نے اپنے ایک ریسرچ پیپر میں انکشاف کیا ہے کہ انڈین خفیہ ایجنسی را کی سرگرمیاں 2008ء سے قبل تک جنوبی اور مغربی ایشیائی ملکوں جن میں ایران، ترکی، ترکمانستان اور اُزبکستان تک محدود تھیں، ہندوستانی انٹیلی جنس حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد را کے آپریشنز میں توسیع کی گئی تھی، ہندوستانی حکام غیر رسمی بات چیت میں را کا مغربی ملکوں میں پھیلاؤ کو 2008 کے ممبئی حملوں میں امریکی شہری ڈیوڈ ہیڈلی کے مبینہ طور پر ملوث ہونے جوڑتے ہیں، 2008ء کے وسط میں اندین خفیہ ایجنسی را کے سربراہ اشوک چترویدی نے را کے نیٹ ورک کو مغربی ملکوں تک پھیلانے کا فیصلہ کیا، باسلز، نیویارک، اوٹاوا، لندن میں اس ایجنسی نے اپنے اسٹیشن چیفس سفارتی لبادے میں مقرر کرنا شروع کردیئے، جن کے ابتدائی مقاصد علمی تحقیقات کی چوری اور بڑی کمپنیوں کے بارے میں معلومات جمع کرنا تھا، 2016 میں جب را کے سربراہ راجندر کھنا تھے تو مغربی ملکوں میں بھی جنوبی ایشیائی ملکوں کی طرح را کی آپریشنل سرگرمیوں کو بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا، اس وقت مغربی ملکوں میں ایک اندازے کے مطابق تخریبی سرگرمیوں کیلئے را کے سو سے زائد ایجنٹ ہیں، جو امریکہ سمیت یورپی ملکوں کے نجی اداروں رستوران اور ہوٹلز میں کام کرتے ہیں، اگرچہ را کی انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کی ضروریات اور آپریشنل ترجیحات مختلف وزرائے اعظم کے ادوار میں بدلتی رہی ہیں لیکن اس کے کاموں کا بنیادی محور بھارت کے پروسی ملکوں اور خاص کر پاکستان اور چین جیسے اسٹریٹجک دشمنوں کے بارے میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنا اور آپریشنل سرگرمیاں انجام دینا تھا جبکہ مغربی ملکوں میں ہندوستان کا انٹیلی جنس بیورو انٹیلی جنس سروس انجام دیا کرتا تھا۔
بھارتی سیاستدانواں کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ ہندوستان بھی چین کی طرح اپنا عالمی کردار بڑھائے لیکن بھارت معاشی اور ٹیکنکی اعتبار سے چین جیسی استعداد کا حامل نہیں ہے، یہ امریکہ اور بعض یورپی ممالک ہیں جنھوں نے انڈین سیاستدانوں میڈیا اور بزنس مینز کے ایک گروہ کو سمجھایا ہے کہ بھارت ہی وہ واحد ملک ہے جو چین کی جدید سامراجیت کو روک سکتا ہے، امریکی اور یورپی ملکوں نے بھارتی غبارے میں خوب پھونک بھری ہوئی ہے، جس کے نتائج خود بھارت کیلئے خطرناک ثابت ہورہے ہیں اور جب بھارتی غبارے سے ہوا نکل جائے گی تو حالات بھارت کے حق میں بہتر نہیں ہونگے، امریکہ اور یورپی ممالک بھارت کے کردار کو صرف چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتے وہ یہ ہرگز قبول نہیں کریں گے کہ بھارت اُن کے ملکوں میں تخریبی سرگرمیوں کی استعداد حاصل کرئے، کینیڈا تو فیس پر آیا ہے اس کے پیچھے امریکہ اور یورپ کھڑا ہے، جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو 20 لوگوں کو صاف کردینے پر بھارتی سیاستدان جشن مت منائیں، جب تک بھارت میں مسلم دشمنی پر مبنی پالیسیاں جاری ہیں اُسے مزاحمت کا سامنا رہے گا خود اُس کو اپنے اندر سے مزاحمت ملے گی، پاکستان نےبھارتی وزیر دفاع کے بیان کو ہلکا لیا ہے ہماری ایجنسیاں اور متعلقہ ادارے سیاست پر توجہ دینے کے بجائے اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کریں اور ہرگز اجازت نہ دیں کہ کوئی بھی ملک پاکستان کے اندر اپنے مذموم عزائم کو پورا کرسکے۔