پاکستان تحریک انصاف نے سابق وزیراعظم عمران خان سمیت ہزاروں سیاسی کارکنوں و رہنماؤں اور اسیر صحافیوں کی رہائی کے لئے قرارداد پارلیمنٹ ہاؤس میں جمع کرادی ہے، اس قرارداد کے قومی اسمبلی میں جمع ہونے سے پاکستان کی فوجی مقتدرہ کو شدید دھچکا لگا ہے جبکہ پاکستان میں 8 فروری کے انتخابات میں انجینیڈ انتخابات کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت دلوانے کیلئے کوششیں جاری ہیں، سابق وزیراعظم عمران خان پر کم وبیش دو سو مقدمات درج ہیں جو یقیناً بے بنیاد ثابت ہونگے مگر فوجی مقتدرہ کی ایماء پر بنائے گئے مقدمات ختم کرنے کی قرارداد اگر منظور ہوگئی تو فوجی مقتدرہ ڈال بنائی گئی شہباز حکومت کا سارا کا سارا بیانیہ سیاسی انتقام نظر آئے گا، سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کی حمایت پیپلزپارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں ضرور کرینگی، یاد رہے قرارداد سابق اسپیکر اسد قیصر نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ جمع کرائی، قرارداد میں عمران خان و دیگر پارٹی رہنماؤں شاہ محمود قریشی، چوہدری پرویز الہٰی اور اعجاز چوہدری کے علاوہ صحافی عمران ریاض اور اسد طور کے خلاف غیرقانونی مقدمات ختم کرکے فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے، قرارداد میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے مقدمات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اسد قیصرکا دعویٰ ہے کہ قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں اس قرارداد کو پاس کرئے گی، اگر قرارداد منظور ہوگئی تو فوجی قیادت کا امتحان شروع ہوجائے گا، جو عمران خان پر سرخ لیکر کھیچ چکی ہے، تحمل اور بردباری سے تمام فریقوں کو فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، فوجی قیادت کو بھی تحمل سے کام لینا ہوگا اور یہ بات ثابت کرنی ہوگی کہ وہ جمہوریت کیساتھ کھڑی ہے اور سیاسی حکومت کی فرمابردار ہے، مجھے یاد ہے کہ جنرل محمد ضیا نے غیر جماعتی اسمبلیاں تشکیل دیں تو قومی اسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب فخر امام نے جیت لیا حالانکہ فضاء میں جل کر ہلاک ہونے والے ضیاء صاحب خواجہ آصف کے والد خواجہ محمد صفدر کو اسپیکر قومی اسمبلی منتخب کرانا چاہتے تھے لیکن فوج کی سربراہی رکھنے کے باوجود وہ ناکام رہے اور اسی اسمبلی نے انہیں مارشل لاء ہٹانے کی ڈیڈ لاین دی جو اُس وقت کی فوجی مقتدرہ کیلئے بادِ صَرْصَرْ ثابت ہوئی اور وقت گزرنے کیلئے یہ طوفان محمد خان جونیجو کی حکومت کو لے اُڑا اور ائیرپورٹ پر اُن کا نوازشریف نے ساتھ چھوڑ دیا۔
پاکستان کے سیاسی حالات میں کشیدگی تو کسی کے مفاد میں نہیں ہے مگر کیا کیا جائےکشیدگی تو حقیقت ہے، ظلم وجبر سے کسی کو صفحہ ہستی سے مٹانے سے توحالات کشیدہ ہوتے ہیں اور جب سیاسی لیڈر عمران خان جیسا کھلاڑی ہو،پاکستان میں ایسے سیاسی حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں کہ موجودہ قومی اسمبلی فوجی مقتدرہ کی سیاسی مداخلتوں پر قدغن لگادے، اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوجی قیادت کے سیاسی کردار ختم نہیں ہوا تو انہیں زبردستی فوجی چھانیوں میں بھیجیں گے، محمود خان نے بہت بڑی بات کی ہے، جس کا خمیازہ دوسرے دن گھر پر چھاپے کی صورت میں انھوں نے دیکھ بھی لیا مگریہ معمولی بات نہیں موجودہ اسمبلی کے تیور اور سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ کچھ بڑا ہونے جارہا ہے شاید یہ پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہو، ہماری دعا ہونی چاہیئے کہ پاکستان کی سلامتی اور جغرافیائی سالمیت قائم رہے، اس وقت سیاسی قیادت نے درست فیصلے کرلئے اور ملکی اور بیرونی بیساکھیوں کو توڑ دیا تو ملک معاشی اور سیاسی ترقی کے راستے پر لگ جائے گا۔
2 تبصرے
یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ عمران خان اور وہ دس ہزار پی ٹی آئی کے کارکن سیاسی قیدی ہیں لیکن حیرت تو امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں پر ہوتی ہے، جو شمالی کوریا اور روس وچین کیلئے انسانی ھقوق کی خلاف ورزی کی بات کرتے ہیں مگر پاکستان میں گزشتہ دو سالوں سے مارشل لاء پلس کے دوران سیاسی کارکنوں پر ڈھائی جانے والے مظالم اورمیڈیا پابندیوں پر خاموش ہیں۔
Pakistam mai political prisnors ko release kya jaey