سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ وڈیولنک پیش ہونے کی اجازت دے دی جبکہ اٹارنی جنرل نے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی ہے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں، عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی ہے، سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس مقدمے میں پٹیشنر عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تو ان کو یہاں پیش کیا جانا چاہیے، وہ اس مقدمے میں ایک فریق ہیں ہم ان کو پیش ہونے کے حق سے کیسے روک سکتے ہیں، یہ نیب کا معاملہ ہے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ان کا حق ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آئین سے متعلق معاملہ ہے، کسی کے ذاتی حقوق کا معاملہ نہیں، ایک بندہ جو وکیل بھی نہیں وہ ہمیں کیسے معاونت فراہم کر سکتا ہے؟ ہمارا آرڈر تھا کہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے سے دلائل دے سکتے ہیں، ہم پانچ منٹ کیلئے سماعت ملتوی کر کے اس پر مشاورت کر لیتے ہیں، وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر سپریم کورٹ نے عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دیدی۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کے انتظامات کیے جائیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بڑی عجیب صورتحال ہے کہ عمران خان جو اس مقدمے میں درخواست گزار تھے اور اب اپیل میں فریق ہیں ان کی یہاں پر نمائندگی نہیں، بانی تحریک انصاف اگر دلائل دینا چاہیں تو ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دے سکتے ہیں، ان کے ویڈیو لنک کے زریعے دلائل دینے کا بندوبست کیا جائے، چیف جسٹس نے عدالتی عملے سے استفسار کیا کہ کتنے وقت تک ویڈیو لنک کا بندوبست ہو جائے گا، اٹارنی جنرل نے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کر دی، بعد ازاں چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کو 16 مئی کو عمران خان کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کے انتظامات کرنے کی ہدایت کردی۔
2 تبصرے
قاضی عیسیٰ گزرتے دنوں کیساتھ قوم کے سامنے عیاں ہوتے جارہے ہیں، انہیں اسد طور جیسے عاقبت نا اندیش صحافی جمہوریت پسند قرار دیتے تھے
جماعت اسلامی منافق جماعت ہے اس وقت اسے عمران خان کا بازو بننا چاہیے تھا مگر ابّو کے کہنے پر اپنی پرانی روش پر دوبارہ آچکی ہے۔