حماس کے ایک سینئر رہنما نے جمعرات کو کہا کہ مصر کی توسط حماس کو جنگ بندی کی جو نئی تجویز پیش کی گئی ہے اس میں کوئی نئی چیز شامل نہیں ہے اور کہا کہ حماس کی بنیادی شرط غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا ہے، اس شرط کو مانے بغیر اسرائیل کیساتھ قیدیوں کا تبادلہ ممکن نہیں ہے، قاہرہ سے تل ابیب پہنچنے والے اسرائیلی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ امریکی اور مصری ثالث میں جنگ بندی کوششوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اس کے باوجود کہ انہیں یہ احساس ہے کہ دونوں متحارب فریقوں کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے، انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتے قاہرہ میں عید الفطر سے قبل مذاکرات کا ایک نیا دور ہو سکتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ حماس کی قیادت نے مصری اور قطری ثالثوں کو مطلع کیا کہ جو پیشکش کی جا رہی ہے اسے قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اسرائیل کی ضد کا تسلسل ہے۔
قبل ازیں حماس کے سیاسی بیورو کے عہدیدار اسامہ حمدان نے بیروت سے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ فلسطینی گروپ کی جانب سے لچک دکھانے کے باوجود غزہ جنگ بندی کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، حمدان نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس تعطل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور دعویٰ کیا کہ وہ رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جو دونوں فریقوں کو ایک معاہدے تک پہنچنے نہیں دے رہے ہیں اور یہ باور کرارہے ہیں کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، مکمل جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کیلئے حماس اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء، مستقل جنگ بندی، شمالی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی واپسی اور انسانی امداد کی مقدار میں خاطر خواہ اضافے کا مطالبہ کر رہی ہے۔