تحریر: محمد رضا سید
مشرق وسطیٰ کے حالات و واقعات کا سرسری جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا فوری امکان نظر نہیں آرہا ہے، امریکہ بظاہر جنگ بندی کی کوششوں میں سرگرم تو دیکھائی دیتا مگر اس کے اقدامات جنگ بندی اور نسل کشی کے اسرائیلی منصوبے کے روک تھام کی مخالف سمت اختیار کئے ہوئے ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن نے مئی 2024ء میں مرحلہ وار جنگ بندی کی شرائط پیش کیں تو امریکی انتظامیہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ حماس فوری ردعمل کے طور پر یکم جون کو ہی جوبائیڈن کی تجویز کردہ شرئط کے تحت جنگ بندی قبول کرلے گی، جسے اقوام متحدہ کی توثیق بھی حاصل ہوچکی ہے، اگر امریکی صدر جوبائیڈن کو یہ بتایا جاتا کہ حماس جنگ بندی تجاویز کو قبول کرلے گی تو امریکی انتظامیہ اس بابت پیشرفت ہی نہیں کرتی تاہم اسرائیل کےروایتی منافقانہ عمل نے امریکی صدر جو بائیڈن پر آنچ نہیں آنے دی بلکہ حزب اللہ کے سینئر کمانڈر فواد الشکور اور حماس کے چیف مذاکرات کار اسماعیل ہنیہ کو تہران میں قتل کرکے نیا پنڈروباکس کھول دیا،مکار اسرائیل اپنے طے شدہ اہداف کے تحت غزہ اور ویسٹ بینک میں فلسطینیوں کی نسل کشی کیساتھ ساتھ بار بار انہیں ہجرت پر مجبور کرکے فلسطینی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے کو وسعت دی جائے۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دو بنیادی مقاصد واضح تھے ایک 1948ء سے جاری تجاوزات کے سلسلے کو آگے بڑھانا اور فلسطینیوں کو اردن اور مصر کے صحرائے سینا کی طرف ڈھکیلنا تھا، یہاں پر ہمیں مصر اور اردن کی قیادت کی تعریف کرنا پڑے گی، جنھوں نے اسرائیل کے مذموم مقصد کے سامنے بند باندھا اور فلسطینیوں کو اپنے اپنے ملکوں میں آنے سے روکا ، اسرائیل کا دوسرا مذموم مقصد خطے میں موجود مزاحمتی قوتوں کو بہت زیادہ کمزور کرنا تھا جبکہ امریکہ اِن دونوں مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اسرائیل کیساتھ برابر کھڑا ہوا نظر آتا ہے، یہ ممکن نہیں کہ امریکہ اسرائیل کے خلاف کوئی راست قدم اُٹھائے کیونکہ امریکہ کو اسرائیل کی ابھی بھی ضرورت باقی ہے، ، گزشتہ دہائی کے دوران تیل پر مغربی ملکوں کا انحصار بتدریج کمی کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ عربوں کو خوفذدہ رکھنے کیلئے اسرائیل کی اہمیت وہ نہیں رہی جو گزشتہ سات دہائیوں میں تھی ، امریکہ اور مغربی ملکوں کی خارجہ تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا تھا کہ اسرائیل بتدریج امریکی اور مغرب کی ترجیحاتی فہرست میں نچلی سطح پر آتا جارہا تھا لیکن 2018ء میں روس ایک طاقتور قوت کے طور پر مشرق وسطٰی میں وارد ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے خطے میں ایسے قدم جمائے کہ امریکہ اور مغرب انگشت بہ دندان رہ گئے پھر چین نے بھی اسی عرصے کے دوران مشرق وسطیٰ میں بڑی سرمایہ کاری شروع کردی ، اس طرح چین بھی مشرق وسطیٰ میں ایک بڑا اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے موجود ہے،اس اسٹریٹجک تبدیلیوں نے امریکہ کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اسرائیل کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کو اضافی فوجی امداد فراہم کرنے کیساتھ ساتھ خطرناک بموں کی سپلائی کوجاری رکھا اور دوسری طرف اقوام متحدہ کی امن اور امدادی کوششوں سے کتراتے ہوئے بے گھر فلسطینیوں کو قحط کی صورتحال سے دوچار کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امریکہ غزہ میں جنگ بندی سے زیادہ اسرائیلی خواہشات کا احترام کررہا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی سے متعلق امریکی ثالثی مشکوک ہی نہیں مذموم نظر آتی ہے ،اتوار کو نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کی طرح امریکہ بھی حماس کی نو منتخب قائد یحییٰ سنوار کو تلاش کرنے کی کوششوں میں بڑے وسائل استعمال کررہا ہے ، اس سلسلے میں امریکہ بڑی تعداد میں اسرائیل کو زیرزمین تلاشی میں مدد کرنے والے ریڈار فراہم کررہا ہے جبکہ امریکی جاسوسی ایجنسیوں کو حماس رہنما یحییٰ سنوار کی مواصلات تک پہنچ کو محدود کرنے کی ذمہ داریاں دی گئیں ہیں، صاف ظاہر ہے کہ امریکہ اور اسرائیل حماس کو نقصان پہنچانے کے نکتے پر ہم خیال ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کیامریکی کوششوں کو سیاسی شعبدہ بازی ہی قرار دیا جاسکتا ہے، جو جنگ بندی کے نام پر مزاحمتی قوتوں کو گمراہ کررہا ہے، حماس سمیت تمام مزاحمتی قوتوں اور ایران جو اپنی سلامتی کی خلاف ورزی کا بدلہ لینے کیلئے تیار ہے فی الفور اقدامات کرنے ہونگے، اسرائیل اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اڈوں کیلئے خطرات کو وجودی حیثیت دیئے بغیر غزہ میں انسانیت کے خلاف جنگ بند نہیں کرائی جاسکتی، 21 جولائی 2006 کو لبنان پر اسرائیل کی 34 روزہ جنگ کے نو دن گزر نے پر جب 1,200 سے زائد افراد شہید ہوچکے تھے، امریکہ کی سابق وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے کہا کہ حزب اللہ کی طاقت کو ختم کئے بغیر فوری جنگ بندی کا کوئی مطلب نہیں ہوگا، امریکہ اور اسرائیل خطے میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کے وجود کے خلاف ایک پیج پر ہیں، اُس وقت بھی جنگ بندی میں تاخیر کرنے کی تدبیر کرنے کے علاوہ امریکہ نے بڑے پیمانے پر قتل عام میں مدد کیلئے اسرائیل کو درست رہنمائی والے بموں کی ترسیل تیز کر دی تھی، غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی براہ راست نسل کشی کو 15 سال گزر چکے ہیں مگر امریکہ خود کے تجویز کردہ دوریاستی حل میں سنجیدگی دکھانے کے بجائے اسٹیٹس کو کو قائم رکھنے پر اپنی توانائی لگاتا رہا ہے غزہ جنگ میں بھی امریکی کوشش ہے کہ کسی طرح سے اسٹیٹس کو منوالیا جائے، اس کیلئے امریکہ ہر وہ حربہ استعمال کررہا ہے جو فلسطینیوں پر دباؤ بڑھا سکے جبکہ مزاحمت وہ واحد راستہ ہے جو اسرائیل کو منصفانہ طور پر جنگ بندی پر آمادہ کرسکتا ہے۔