تحریر : محمد رضا سید
الجیرہ نیوز چینل کے اردن میں موجود اپنے نمائندہ کے ذريعے بتایا کہ اسرائیلی میڈیا کو اعلیٰ اسرائیلی عسکری حکام نے نیوز فیڈ کی ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے سے قبل تہران میں متعلقہ حکام کو آگاہ کردیا گیا تھا، اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس کے نگرانی کرنے فضائیہ کے جہاز اسرائیل پہنچ چکے ہیں، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسرائیل کو فیس سیونگ چاہئے تھی جو جمعہ کی صبح حملے کرکے مل چکی ہے، تہران میں حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملہ مجموعی طور پر ناکام بنادیا گیا اور ملک بھر میں حساس تنصیبات محفوظ ہیں، اسرائیل کے فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف انتقامی کارروائیاں ختم ہو چکی ہیں اور وہ ایران سے مزید انتقامی کارروائی نہیں چاہتے، غالب امکان یہی دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل کے کمزور فوجی اقدامات کے بعد تہران اس کا جواب نہیں دے جبکہ ایران مزاحمتی قوتوں کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا تاوقتکہ اسرائیل غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کیلئے آمادہ نہ ہوجائے، اسرائیلی فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری کے بیان سے بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اسرائیل ایران سے براہ راست جنگ کرنے سے خوفذدہ ہے، اس سے قبل ایرانی رہنما نے اسرائیل پر واضح کردیا تھا تل ابیب کے جوابی اقدامات دیکھتے ہوئے فوجی حکمت عملی بنائی جائے گی، اب جبکہ اسرائیل نے ہفتے کی صبح کمزور فوجی کارروائی کرکے مزید حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ خطے میں جنگ کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہوچکے ہیں
سپریم کورٹ آف پاکستان اور پالیمنٹ کیلئے باپ کے باپ ہونےکا سوال ختم ہونے کے بعد ہم دوبارہ باپ کے باپ کو تلاش کرتے ہیں، سینیٹر فیصل واڈا جس جماعت سے باہر آئے ہیں شاید اُس کے سربراہ کو باپ کا باپ سمجھتے ہیں کیونکہ اُس کی مقبولیت باپ سے بھی زیادہ ہوچکی ہے، وہ جیل میں ہیں اور باہر بیٹھے ہوئےطاقتور لوگ اُن سے خوفذدہ ہیں، سیاستدان اُس کی سیاست کو اپنی سیاست کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں، باغی ارکان عوام میں جانے سے ڈرتے ہیں، کرپٹ مافیا اور نوکر شاہی اپنے احتساب سے ڈرتے ہیں, 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے پریس ٹاک کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے حتمی مسودے میں پوشیدہ زیریلے سانپ کا زہر نکال کر اُس کے دانت توڑ دیئے ہیں معلوم نہیں فضل الرحمٰن نے کس زیریلے سانپ کا ڈنک نکالا ہے اور کس کے دانت توڑے ہیں، حقیقت میں تو سپریم کورٹ پر زور دار مکا مارا گیا ہے، بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نہ ہوتے تو 26 ویں آئینی ترمیم منظور نہیں ہوسکتی تھی بات بالکل درست ہے ، فائز عیسی ٰ اگر فلور کراسنگ کرنے والوں کا ووٹ شمار کرنے کا حکم جاری نہیں کرتے تو 26 ویں آئینی ترمیم واقعی منظور نہیں ہوتی، اب دیکھنا ہوگا کہ فائز عیسیٰ کو اس کا صلہ کیا ملتا ہے، آج اُن کی رخصتی کا آخری دن تھا وہ بڑے بے آبرو ہوکر سپریم کورٹ سے نکلیں ہیں اور اپنے آخری خطاب میں بھی اُنھوں نے درست کہا ہے کہ آزادی میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں، اُن کے پلے پی ٹی آئی کو بلّا چھینے کا بدنام زمانہ فیصلہ ہے جو اُن کا پیچھا کرتا رہے گا اور عدالتی تاریخ میں اسے مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکے گاالبتہ اُن کا بحیثیت چیف جسٹس پورا دور تنازعات سے بھرپور رہا وکلاء سے بدتمیزی ساتھی ججز کیساتھ ناروا سلوک یہ سب اُن کے پلے بندھے ہیں، سینئر ترین جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک اور خط لکھتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے متعلق فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات بتائیں کہ چیف جسٹس(ریٹائرڈ) فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے بجائے مداخلت کے مزید دروازے کھول دیئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس کا کردار عوام کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، چیف جسٹس کا کام عدلیہ کا دفاع کرنا ہے، ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر بیرونی دباؤ نظر انداز کیا،ایک چیف جسٹس نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہوتا ہے، اُنھوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ میں مداخلت پر ملی بھگت کے مرتکب رہے ہیں، یہ بہت زیادہ سنگین الزامات ہیں جو سینئر ترین حاضر جج نے لگایا ہے، ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئے ، بلاول بھٹو زرداری کا انکشاف کہ جسٹس فائز کےبغیر 26 ویں آئینی ترمیم آئین کا حصّہ نہیں بن سکتی تھی جسٹس منصور شاہ کی جانب سے لگائے گئے ٹھوس الزامات کی تصدیق کرتا ہے، اس وقت پاکستان کی سپریم کورٹ ہی نہیں پورا نظام انصاف سوالیہ بنا ہوا ہے، اقوام متحدہ نے 26 آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ واکر ٹرک نے 26ویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو شدید مجروح کردے گی، اقوام متحدہ کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ انسانی حقوق کے متعلق لوگوں کو انصاف دینے کے قابل نہیں رہی ہے، سپریم کورٹ کا کڑا امتحان ہے کہ وہ 26 ویں آئینی ترمیم کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے دیتی ہے یا انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کو برداشت کرتی ہے۔