جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے سوال اٹھایا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ بنائے گئے نتائج پر کب تک سمجھوتہ کرتے رہیں گے، جو ہمارے محکوم ہونے چاہیئے تھے وہ ہمارے آقا بنے ہوئے ہیں، اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں فضل الرحمٰن کے خطاب سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے اسپیکر ایاز صادق سے احتجاج کرنے کے پارٹی کے آئینی حق کو یقینی بنانے کی درخواست کی، اسد قیصر نے کہا کہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ پی ٹی آئی کو اس کے جائز حقوق کیوں نہیں دیئے جا رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ہم سویلین بالادستی اور آزاد عدالتیں چاہتے ہیں، پی ٹی آئی رہنما کے بعد اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے قائد فضل الرحمٰن نے کہا کہ اسد قیصر کی درخواست حق بجانب ہے، جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے، میں اسد قیصر کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں، انہوں نے کہا کہ حلف برداری کے بعد میں پہلی مرتبہ ایوان میں آیا ہوں، حکومت میں موجود جماعتوں کے سینئر لوگ مینڈیٹ پر سوال اٹھا رہےہیں، ہم نے سودے کیے اور جمہوریت بیچ دی، انہوں نے کہا کہ اس ملک کی آزادی میں نہ بیوروکریسی اور نہ ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے۔
فضل الرحمٰن نے کہا کہ کیا یہ عوامی پارلیمنٹ ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی ترتیب دی ہوئی پارلیمنٹ ہے ؟ ماضی میں ایک صدر نے 5 وزیراعظم تبدیل کیے، بڑی مشکل سے پارلیمانی جمہوریت پر اتفاق ہوا اور لوگوں کو ووٹ کا حق ملا، مولانا فضل الرحمٰن نے سوال اٹھایا کہ قائد اعظم کا پاکستان آج کہاں ہے؟ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرے گی، اسٹیبلشمنٹ جو نتائج دے، اس پر کب تک سمجھوتے کرتے رہیں گے، سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ سیاستدان معلومات کی بنیاد پر بات کرتا ہے، ہماری معلومات یہ ہیں اس بار اسمبلی بیچی گئی اور خریدی گئی، جیتنے والے بھی پریشان اور ہارنے والے بھی پریشان، جیتنے والے اپنے ہی منڈیٹ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم اس لئے کمزور ہیں کیونکہ ہم نے جمہوریت بیچی، ہمیں الیکشن میں نکلنے ہی نہیں دیا گیا، ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ریاست ہے، کیا آپ لاہور کے نتائج سے مطمئن ہیں؟ فضل الرحمٰن نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے استفسار کیا کہ کیا آپ مطمئن ہیں، ایاز صادق نے جواب دیا میں مطمئن ہوں، جس پر سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اللہ آپ کو مطمئن رکھے۔