کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پنجاب اسمبلی میں منظور شدہ ہتک عزت بل پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، انسانی حقوق کمیشن کے مطابق ہتک عزت بل کا مواد اور متن کئی حوالوں سے پریشان کن ہے، اس بل میں ہتک عزت کے دعوؤں کا فیصلہ کرنے کیلئے متوازی عدالتی ڈھانچہ تجویز کیا گیا ہے، ایچ آر سی پی خصوصی متوازی عدالتی ڈھانچوں کو اس بنیاد پر مسترد کرتا رہا ہے کہ وہ بنیادی حقوق اور منصفانہ عدالتی کارروائیوں سے متعلق دیگر عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں کے منافی ہیں، اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہتک عزت کے ٹربیونلز کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جبکہ حکومت کو موجودہ ماتحت عدلیہ کے مقابلے میں زیادہ الاؤنسز اور مراعات پر ججوں کے تقرر کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ تیسری بات یہ کہ ہتک عزت کے تمام مقدمات کو 180 دن کی مختصر مدت میں نمٹانا ہوگا، ایچ آر سی پی کے مطابق بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر ہتک عزت کے ٹربیونلز بغیر کسی ٹرائل کے فوری طور پر 30 لاکھ روپے تک کے معاوضے کی ادائیگی کا عبوری حکم نامہ جاری کرنے کے مجاز ہوں گے، یہ اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی کیلئے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔
غالب امکان یہ ہے کہ ایسے احکامات معین طریق کار کی پیروی اور منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائے بغیر جاری کیے جائیں گے، انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ چوتھی بات یہ کہ مسودہ قانون میں آئینی عہدوں کے حامل افراد جیسے کہ وزیر اعظم، چیف جسٹس اور فوجی سربراہان اور دیگر پر مشتمل ایک خاص کیٹیگری تشکیل دی گئی ہے، ان کیٹیگریز سے متعلق ہتک عزت کے دعوؤں کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل خصوصی یک رکنی ٹربیونلز کریں گے، یہ شق شہریوں کی مساوات اور قانون کے سامنے برابری کے اصول کے منافی ہے، ایچ آر سی پی نے بل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کو انتہائی عجلت میں پیش کیا گیا اور جلد بازی میں منظور بھی کرلیا گیا، سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل اور مرکزی میڈیا کے اداروں کے ساتھ کسی بھی بامعنی مشاورت کے لئے پانچ دن کا وقت انتہائی کم ہے، خاص طور پر ایک ایسی پیچیدہ قانونی تجویز کے تناظر میں جو آن لائن پلیٹ فارمز پر رائے عامہ تشکیل دینے والوں کے پورے نظام کو متاثر کرے گی۔