تحریر: محمد رضا سید
روس نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تشدد میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے دور میں مشرق وسطیٰ کے متعلق جو بھی پالیسیاں بنائی گئی ہیں وہ مکمل طور ناکامی ہوچکی ہیں، روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے منگل کی شام کو اسرائیل کے خلاف جوابی میزائل حملوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیان ہے کہ مشرق وسطیٰ کو امریکی پالیسیوں نے بارود کے ڈھیر پر لاکھڑا کیا ہے، مشرق وسطیٰ میں روسی کردار کی بنیاد مزاحمتی محور ہے خطے میں روس کی دلچسپی پیدا کرنے میں ایران اور شام کے صدر بشار الاسد کا کردار اہمیت کا حامل تھا جب روس نے نومبر 2018ء میں شام میں امریکی حمایت یافتہ دہشت گردی سے لڑنے کا فیصلہ کیا یوں تو محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودیوں نے بھی امریکہ اور کسی حد تک روس و چین سے تعلقات کو متوازن بنانے کی کوشش کی ہے، جس کی وجہ سے اِن دونوں ملکوں کا مشرق وسطیٰ میں اسٹیک گزشتہ پانچ دہائیوں کے مقابلے میں بڑھا ہے، چین وہ ملک ہے جس نے ایران اور سعودیوں کے تعلقات کو بحال کرانے اور باہمی رقابت ختم کرنے کیلئے کردار ادا کیا اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر رکھنے کیلئے ضمانتی کا کردار قبول کیا، سعودی عرب روس سے ہتھیاروں کی خریداری سمیت ایٹمی شعبے میں تعاون کا خواشمند ہے، خیال رہے کہ ایران بھی خیر سگالی کے جذبے کے تحت ریاض کیساتھ ایٹمی شعبے میں تعاون کی پیشکش کرچکا ہے، مشرق وسطیٰ میں منگل کی شام ایران کے میزائلز حملوں نے اس خطے کی سیاسی اور فوجی صورتحال کو تبدیل کردیا ہے، اسرائیل کے مطابق تہران نے یہودی ریاست کے اندر درجنوں اہداف پر 181 بیلسٹک میزائل داغے ہیں جبکہ ایک اور سرکاری ذریعے نے اسرائیل بھر میں کم وبیش 400 ایرانی میزائلوں کی گھن گرج اور گرنے کی تصدیق کی ہے البتہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ کچھ ایرانی میزائیلوں کو اسرائیل فضائی دفاع کے نظام نے زمین پر گرنے سے قبل ہی تباہ کر دیا، ایران کے سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کی جانب سے فائز کئے گئے بیلسٹک میزائلوں نے اسرائیل کے فوجی انفراسٹرکچر کو کافی نقصان پہنچا ہے، ایرانی حکام نے اسرائیل پر منگل کی شام سے رات کے پہلے پہر تک میزائلوں سے تل ابیب سمیت تمام اسرائیلی شہروں پر کی گئی اسٹرائیکس کو فلسطینی رہنما اور حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں جولائی میں ہونے والے قتل اور گزشتہ ہفتے بیروت میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کے قتل کا بدلہ قرار دیا ہے۔
اسرائیل نے ایران کے میزائل حملوں کا آج رات جواب دینے کا عندیہ دیا ہے تاہم ایران نے اسرائیل کو ایک وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے مزید کوئی غلطی کی تو اگلا حملہ زیادہ شدت کیساتھ ہوگا اور اسرائیل اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا، اسرائیل کو واضح پیغام بھیج پہنچا گیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران کے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی معمولی کوشش بھی کی تو ایران قبل از وقت اسرائیلی ایٹمی تنصیبات کو صفحہ ہستی سے مٹادے گا، خیال رہے کہ اسرائیل نے ابتک کوئی ایٹمی دھماکہ نہیں کیا ہے مگر عربوں اپنی نام نہاد ہیبت طاری کرنے کیلئے ایٹمی طاقت ہونے کا پروپیکنڈا کیا ہے، مغربی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے ذرائع ابلاغ من گھڑت کہانیوں کے ذریعے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک قرار دیتے رہتے ہیں، عالمی میڈیا میں قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں کہ اسرائیل کے پاس 80 سے 400 کے درمیان ایٹمی ہتھیار موجود ہیں تاہم اسکا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے، ایسے دعوے بھی کئے جاتے رہے ہیں کہ اسرائیل کی انجہانی وزیر اعظم گولڈا میئر نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر غور کیا تھا لیکن اس دعوے کا کوئی تصدیق شدہ ثبوت موجود نہیں ہے، اسرائیل نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں اور مغربی انٹیلی جنس ذرائع سے اس قسم کی اطلاعات جاری کروائی جاتی ہیں کہ اسرائیل نے 1960ء کی دہائی میں ہی جوہری صلاحیت حاصل کرلی تھی، اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق اعداد و شمار میں تفاوت اس کی سچائی کو مشکوک بناتا ہے، اسرائیل کی اہم جوہری تنصیب صحرائے نیگیو میں دیمونا میں واقع ہے، منگل کی شام اسرائیل پر دوسرے حملے کے دوران ایران نے اپنے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل کے ذریعے دیمونا کو بھی نشانہ بنایا ہے، یہ تہران کا کھلام پیغام تھا جو اُس نے تل ابیب کو دیا ہے، اگر اسرائیل ایران کے ایٹمی پروگرام پر اٹیک کرئیگا تو ایران بھی اسی انداز میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، چرنوبل کی ایٹمی تنصیبات سے جوہری تابکاری سے انسانیت کو جو نقصان ہوا اسرائیل اس سے باخبر ہے، شاید اسی وجہ سے اسرائیل نے پہلی مرتبہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے کے بجائے تیل کی تنصیبات پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل منگل کی شام ہونے والے ایرانی میزائل حملوں کے جواب میں خواہش کے باوجود ایران کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے سے گریز کرئے گا، ایران نے تیل کی تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی دھمکی کے جواب میں مغربی ملکوں کو باور کرادیا گیا ہے کہ اگر ایرانی تیل کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو مغربی ممالک تیل کی ایک ایک بوند کو ترس جائیں گے ایران خلیج فارس سے مغربی ملکوں کیلئے تیل کی سپلائی کو بند کی صلاحیت رکھتا ہے، روس اور چین نے بھی امریکہ اور یورپی ملکوں سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل سمجھائیں کہ وہ اپنی جنگ کی آگ کو دنیا بھر میں پھیلانے سے گریز کرئے، ایرانی تیل کا بڑا خریدار چین ہے، وہ کس طرح ایران سے تیل کی سپلائی متاثر ہونے نہیں دیگا، میرے خیال میں اس وقت اسرائیل اور اُسکی مربی امریکہ کے پاس کھلینے کیلئے پتے محدود ہیں، دوسری طرف اسرائیل وہ لبنان میں بمباری کی مہم اور محدود دراندازی جاری رکھے ہوئے ہے، خطے میں بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے کیلئے روس اور چین کا کردار اہم ہے اور یہ وہی وقت ہے جب یہ دونوں ملک خطے کے وسیع تر مفاد میں جامے منصوبہ بندی کیساتھ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی حمایت پر مبنی امریکی کرادار کو رول پیک کرنے کی شروعات کریں، امریکہ ایک طرف کھلے عام اسرائیل سے خطے میں تناؤ کم کرنے اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کو اربوں دالر کی فوجی امداد بھی فراہم کررہا اور ایسے ہتھیار بھی فراہم کررہا ہے کو پڑوسی ملکوں میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہورہے ہیں، امریکہ نے تل ابیب کے پاگل حکمرانوں کو بنکر بسٹر بم دے کر اسلامی مزاحمت کے روحانی باپ سید حسن نصر اللہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں جو باقابل معافی جرم ہے، وائٹ ہاؤس کے متضاد بیانات بحرانوں کو حل کرنے میں امریکی انتظامیہ کی مکمل بے بسی کو ظاہر کررہی ہے، امریکی وزیر خارجہ بلنکن کی جنگ بندی سے حوالے سے نام نہاد سرگرمیاں کے باوجود دسیوں ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، اس کے باوجود تل ابیب اپنا فوجی دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہے، ایسے حالات میں کمزور لوگوں کو بچانے کی ذمہ داریاں روس اور چین پر عائد ہوتی ہیں اور اِن دونوں ملکوں کو مفادات کو پس پشت ڈال کر سامنے آنا ہوگا ورنہ تل ابیب کی شدت پسند اور مکمل طور پر زہنی مریضوں پر مشتمل حکومت دنیا کیلئے وابال کھڑا کردے گی۔