تحریر: محمد رضا سید
بی جے پی 63 نشستیں کھونے کے باوجود بھارتی لوک سبھا میں سب سے بڑی پارلیمانی کی حیثیت سے موجود ہے، وزیر اعظم مودی اور اُن کی جماعت بی جے پی نے 2024ء کی انتخابی مہم کے دوران بھارتی اپوزیشن کا مذاق اُڑایا اور دعویٰ کرتے رہے کہ وہ 2024ء کے عام انتخابات میں 400 پیلس نشستیں حاصل کرکے بعض اہم نوعیت کی ائینی ترامیم کریں گے، جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے علاوہ مبینہ طور پر نچلی ذات کے ہندوؤں کو حاصل آئینی تحفظ اور مراعات کو نئی آئینی ترامیم کے ذریعے ختم کرادیں گے، بھارتی عوام نے الیکشن 2024ء میں نریندر مودی کا دیوتا بننے کا خواب چکنا چور کردیا اور ساتھ ہی گوتم اڈانی کی کارروباری بادشاہت کا بھی دھڑن تختہ کرایا دیا، بھارت میں قومی انتخابات کے نتائج آنے کے ساتھ ہی شیئر مارکیٹ میں زبردست گراوٹ دیکھی گئی، وزیر اعظم مودی کے حلیف اڈانی کی کمپنیوں کے شیئر25 فیصد تک گر گئے، حکمراں بی جے پی کو حسب توقع کامیابی نہیں مل سکی جبکہ کانگریس پارٹی نے نتائج کو وزیر اعظم مودی کی اخلاقی شکست سے تعبیر کیا ہے، واضح رہے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیانات کے برخلاف نتائج نے ممبئی اسٹاک ایکس چینج کے کارروبار کو شدید متاثر کیا ہے اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں، دونوں رہنماوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حکمراں این ڈی اے اتحاد کو چار سو سے زیادہ سیٹیں ملیں گی اور چار جون کو مارکیٹ میں زبردست تیزی دکھائی دے گی۔
بھارت میں 2024ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی حاصل کردہ نشستوں کا چاٹ
بھارت کی سیاست میں کارپوریٹ کی دخالت نے اس ملک کی سیاست کو پراگندا کردیا ہے، بھارت کے بڑے کارروباری افراد نے سیاسی جماعتوں کو اپنے کارروباری منفعت کیلئے یرغمال بنالیا ہے، بھارتی زراعت کو کارپوریٹ سیکٹر کے سپرد کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے نے دیہی بھارت کے کسانوں کو اپنا مخالف بنالیا تھا، کسانوں نے احتجاج کیا اور دہلی پر چڑھائی کی مگر مودی نے اس سنجیدہ معاملے کو بھی پاکستان کی سازش قرار دیکر کسان برادری کے حقیقی اور جائز مطالبات پر توجہ نہیں دی لہذا وقتی طور پر پسپائی اختیار کی اور 2024ء کے انتخابات کا انتظار کیا، انتخابی نتائج واضح کررہے ہیں کہ بھارتی کسانوں نے مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے کو اپنے خاموش انتقام کا نشانہ بنایا ہے، بھارت کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے، 2011 کی مردم شماری کے مطابق، بھارت کی کل آبادی کا تقریباً 68.84 فیصد حصہ دیہی علاقوں میں مقیم ہے، یہ تناسب وقت کے ساتھ تھوڑا بہت تبدیل ہوسکتا ہے لیکن دیہی آبادی کا حصہ اب بھی ملک کی کل آبادی کا بڑا حصہ ہے، دیہی بھارت میں زندگی، معاشرتی ڈھانچے، معیشت اور روزگار کے ذرائع شہری علاقوں سے مختلف ہوتے ہیں، زراعت، مویشی پالنا، اور دیہی صنعتیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں، بھارت کی بی جے پی حکومت نے دیہی ترقی پر کارپوریٹ سکٹر کو بہت زیادہ فوقیت دی اور اُن خاندانی کارروباری افراد کو نشانہ بنایا جو بی جے پی کی سیاست سے اختلاف رکھتے تھے اور 2024ء کے الیکشن سے پہلے اِن کارروباریوں کے گرد اتنا گھیرا تنک کیا کہ اُنہیں بھی بی جے پی کا حمایتی بننا پڑا، جسکے نتیجے میں بی جے پی کو اِنتخابات میں اِن دونوں گروہوں کی منتقم مزاجی کا سامنا کرنا پڑا۔
انسانی تاریخ کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ طاقت خواہشات کو مقدم کرتی ہے مگر حالیہ دور عوام کی حکمرانی کا ہے، یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہونی چاہیے کہ ہندوستان میں عوام راج ہے، اس ملک میں فوج اور دیگر ادارے عوام راج کو کسی سازش کے ذریعے بدل نہیں سکتے، بھارت میں جمہوریت کا تسلسل سیاست خراب عناصر کو نکال پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کا اظہار ہم بھارت کے 2024ء کے انتخابات میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں بی جے پی کو 63 نشستوں سے محروم کردیا گیا اگر بی جے پی کی توقعات سے حساب لگائیں اس جماعت نے 90 نشستوں کو کھو دیا ہے، یہ بی جے پی کیلئے بڑی ناکامی ہے، اِن انتخابی تنائج کا جائزہ لیں تو یہ کہنا درست ہوگا کہ 2024ء کے انتخابی نتائج کی روشنی میں بی جے پی کی جو حکومت قائم ہوگی اور اتحادیوں کی بیساکیوں پر کھڑی ہوگی، ہندوستان میں قائم ہونے والی حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے مسلمانوں سمیت اقلیتوں اور خود ہندوؤں کے حقوق کو متاثر نہیں کرسکے گی جبکہ اس سے بڑھ کر بی جے پی کو یہ نقصان پہنچے گا کہ بی جے پی میں زبردستی لائے گئےسیاستدانواں اور موقع پرستوں کیلئے منفعت کے مواقع زیادہ واہ ہوجائیں گے۔
راہل گاندھی نے درست کہا ہے کہ بھارتی اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے الیکشن صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف نہیں لڑا بلکہ پوری ریاستی مشینری کے خلاف الیکشن لڑے کیونکہ خفیہ ایجنسیاں، بیوروکریسی اور آدھی عدلیہ ہمارے خلاف تھی، ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی نے پارٹیاں توڑیں، وزرائے اعلیٰ کو جیلوں میں ڈالا اور ہر ہتھکنڈا استعمال کیا لیکن اس کے باوجود بھارتی عوام نے متفقہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ بھارت کو مودی جی نہیں چاہئیں، ان کا کہنا تھا کہ کانگریس نے متحد ہوکر حکومت کے خلاف انتخاب لڑا، بھارت کو بچانے کا کام غریب لوگوں، مزدوروں اور کسانوں نے کیا اور انڈیا اتحاد نے اس الیکشن میں بھارتی آئین کو بچالیا ہے، راہل گاندھی نوجوان اور تعلیم یافتہ اور بہترین خاندانی پس منظر رکھتے ہیں وہ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے ایک ایٹمی ملک کی بدحواس سیاسی قیادت کے ہاتھ روکنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں، حالیہ انتخابی مہم کے دوران راہل اور اِن کی بہن پرینکا گاندھی نے اپنی سیاست کا لوہا منوا لیا ہے، دنیا اور خود بھارت کو اِن دونوں سے توقعات ہیں، بھارت میں بیروگاری اور غربت میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران اضافہ ہوا ہے، دسمبر 2023ء میں بھارت کی شہری آبادی کا 8.7 فیصد نوجوان بیروزگار تھا بعنی کم و بیش 16 کروڑ نوجوان بیروزگاری کاٹ رہے ہیں، سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق ہریانہ میں بیروزگاری کی یہ شرح 37.4 فیصد ہے جبکہ بھارتی ریاست ہریانہ میں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے،یہ ایک وجہ ہے جس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو عوامی غضب سے دوچار کیا ہے۔