صدر پاکستان نے قومی اسمبلی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے نومنتخب اسمبلی کا افتتاحی اجلاس بلانے سے انکار کے بعد موجودہ مقتدرہ نے صدر پاکستان کے آئینی اختیار کو سبوتاژ کرتے ہوئے سیکریٹریٹ قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس جمعرات کی صبح 10بجے طلب کر لیا گیا ہے جہاں نومنتخب اراکین قومی اسمبلی کی حلف برداری منعقد ہوگی، دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما علی ظفر نے کہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دینے سے متعلق سُنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ قانون اور آئین کے مطابق نہیں کیا تو وہ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، پاکستان جس شدید سیاسی بحران کا شکار ہوچکا ہے وہ دن بدن بےقابو ہوتا جارہا ہے، سینئر سیاسدان فضل الرحمٰن کا کہنا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاست سے کنارہ کش ہوجائے تو پاکستان میں سیاسی استحکام آسکتا ہے، فضل الرحمٰن نے بہت بڑی بات کی ہے وہ ساری زندگی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے تابع مہمل رہے اور اس عمر میں انہیں یہ بات سمجھ آگئی کہ پاکستان کے سیاسی استحکام کیلئے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دستبردار ہونا پڑے گا، پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک کے تمام سیاسی فیصلے فوجی مقتدرہ کرتی ہے اور آج جس نہج پر پاکستان کی سیاست پہنچی ہے اس میں فوجی مقدرہ کا کردار سیاستدانوں سے زیادہ ہے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کو پیدا کرنے والی کلیدی شخصیت مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف ہیں جنھوں نے دولت کے بل بوتے پر آئین اور قانون کا فوجی مقتدرہ کے ہاتھوں مذاق اُڑوایا، اس حقیقت کا پردہ چاک کردیا کہ جس کے ساتھ چند جنرلز ہوں وہ آئین اور قانون کو اپنی لونڈی بناسکتا ہے، پاکستان کے سیاسی استحکام کو تَہ و بالا کرنے کے بعد موصوف کہتے ہیں کہ ملک کی تمام جماعتیں اپنی سیاست ضرور کریں، سیاست میں مخالفت بھی ضرور کریں لیکن پاکستان اور نظام کو خطرے میں نہ ڈالیں، نوازشریف صاحب آپ نے الیکشن خریدا ہے، آپ نے مقدس کرسیوں پر بیٹھے افراد کو خریدا ہے، مقدس کرسیوں پر متمکن افراد کے اثاثے اربوں کے بنائیں ہیں، پاکستان میں جمہوریت دولتمندوں کا کھیل بن چکی ہے، دو امیر ترین خاندان پاکستان کی جمہوریت کو مذاق بناچکے ہیں، بلوچستان میں سیاستدان ہوں یا ووٹرز سب بَبانْگِ دُہل کہتے نظر آرہے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے الیکشن خریدا ہے، بلوچستان کے سینئر سیاستدان تو خریداروں کے نام بھی بتاتے ہیں، ایسے نام نہاد الیکشن کے نتیجے میں منتخب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) ارکان کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہوگی اور موم کی ناک کو موڑنے والے طاقتور لوگ جو چاہیں گے قومی اسمبلی کیا آئندہ منتخب صدر کو بھی کرنا پڑے گا، پیسوں سے خریدے الیکشن نے سیاستدانوں کی قیمت دو کوڑی کردی ہے۔
نوازشریف نے وزیراعظم کے منصب کیلئے شہبازشریف کو بہترین چوئس قرار دیکر عوام کا مذاق اُڑایا ہے، شہباز شریف کے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں دنیا بھر میں گھوم گھوم کر صرف ریاست کو بےعزت نہیں کیا بلکہ قوم کو مہنگائی کے دلدل میں پھینک دیا اور کسی طرح کی اِن دونوں بھائیوں کو پشمانی بھی نہیں ہے، جب ایسے لوگ عوام پر مسلط ہونگے تو پاکستان میں کسی کیلئے خیر نہیں ہوگی، دوسری طرف عمران خان نے آئی ایم ایف کو شہباز شریف کی حکومت کیلئے نئے بیل آؤٹ پروگرام کیلئے بعض تجاویز دیں ہیں، عمران خان نے عوامی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کو باور کرایا ہے کہ جن لوگوں کو مسند حکومت پر بیٹھایا جارہا ہے وہ الیکشن میں عوام سے مینڈیٹ لینے میں ناکام رہے ہیں، انہیں طاقتور ادارے حکومت دے رہے ہیں، آئین اور قانون کا مذاق اُڑایا جارہا ہے، عوامی مینڈیٹ سے محروم حکومت قرضہ لیکر عوام پر بوجھ ڈالے گی وزراء، سکیورٹی ادارے اور نوکر شاہی کی عیاشیوں کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑے گی، سرکاری پروٹوکول کی مد میں اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، یہ رقم تعلیم اور صحت کیلئے خرچ ہونی چاہیئے، یہ ایک مثال ہے، قرضے سے چلنے والی حکومت کو زیب نہیں دیتا کہ اُسکا وزیراعظم اور وزیرخارجہ اربوں روپے سیرسپاٹے پر خرچ کریں، حکومت کے ارکان کرپشن کریں نئی نئی وزارتیں اور محکمے قائم کئے جائیں، ارکان قومی اسمبلی کی وفاداری حکومت سے برقرار رکھنے کیلئے اربوں روپے کے فنڈز بطور رشوت دیئے جائیں، آئی ایم ایف اگر واقعی ریاستوں کو بچانے کیلئے قرضہ دیتی ہے تو اُسے اِن تمام نکات کو مد نظر رکھنا چاہیئے، عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھے خط کے بعد آئی ایم ایف کی بھی آزمائش شروع ہوجائے گی کہ وہ عوام کا بھلا چاہتی ہے یا کسی ملک کے مذموم منصوبے کے تحت جعل سازی کے ذریعے برسراقتدار لائی ہوئی حکومتوں کو قرضہ فراہم کرتی ہے تاکہ قومیں جدید دور کے غلام بن جائیں، عمران خان کے خط نے قرض فراہم کرنے والوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔