مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی پر مشتمل اتحادی حکومت کی جانب سے 1.8 ہزار ارب روپے کے بھاری ٹیکس عائد کرنے کے باوجود حکومت رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی اور ٹیکس وصولیاں ہدف کے مقابلے میں 111 ارب روپے کم رہیں، ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکامی نے ایک طرف آئی ایم ایف سے جاری 7 ارب ڈالر کی قرض کی ڈیل حاصل کرنے میں رجاوٹ پیدا کی ہے تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے منی بجٹ لائے جانے کے امکانات میں بھی اضافہ کردیا ہے، ابتدائی نتائج کے مطابق ایف بی آر کو جولائی اور اگست میں 1.554 ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف دیا گیا تھا، لیکن ایف بی آر صرف 1.441 ہزار ارب روپے ہی جمع کرسکا، گزشتہ مالی سال کی نسبت ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں 26 فیصد اضافہ ہوا تو ہوا لیکن ہدف حاصل کرنے کیلئے ایف بی آر کو ٹیکس وصولیوں میں 40 فیصد اضافہ کرنا ہوگا، اس طرح ایف بی آر کو 14 فیصد خسارے کا سامنا ہے، ایف بی آر کے یہ اعداد وشمار بینکوں کے حتمی نتائج سے مشروط ہیں، بینکوں کی جانب سے حتمی نتائج جاری ہونے کی صورت میں ٹیکس وصولیوں میں 5 سے 10 ارب تک کا اضافہ کی عدا کی جارہی ہے۔
پاکستان کی وزارت خزانہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا سالانہ ہدف 12.970 ہزار ارب روپے رکھا گیا تھا، جس کو حاصل کرنے کیلئے منی بجٹ لائے جانے کا خدشہ ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے نئے قرض پروگرام کے اجراء کیلئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنے کی کڑی شرط عائد کر رکھی ہے، ایف بی آر سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹیز کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا ہے اور صرف انکم ٹیکس کی وصولیوں کا ہدف ہی حاصل کرسکا ہے، واضح رہے کہ ایف بی آر نے جولائی میں اپنے اہداف کامیابی کے ساتھ حاصل کئے لیکن اگست میں اہداف حاصل نہ کرسکا اور 115 ارب کا خسارہ نوٹ کیا گیا، آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان طے شدہ معاہدے کے مطابق اگر حکومت ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی تو اضافی اقدامات کئے جائیں گے، منی بجٹ سے فرٹیلائزر، امپورٹس، پروفیشنلز کی آمدنیوں اور کنٹریکٹرز پر مزید ٹیکس عائد کئے جانے کا امکان بڑھ گیا ہے، وفاقی حکومت پہلے ہی بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے میں ابتک ناکام رہی ہے، اس دوران ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا نہ ہونے سے حکومت کیلئے مزید مشکلات پیدا ہورہی ہیں جبکہ ستمبر میں یہ شارٹ فال مزید بڑھنے کا امکان ہے۔