تحریر : محمد رضا سید
ایرانی صدر ڈکٹر محمد ابراہیم رئیسی 3 روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچ گئے، ایرانی خاتون اول، وزیر خارجہ، کابینہ کے بعض ارکان، اعلیٰ حکام اور بڑا تجارتی وفد ان کے ہمراہ اسلام آباد پہنچا ہے، پاکستانی سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان میں اپنے قیام کے دوران صدرمملکت، وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کریں گے، صدر رئیسی کے دورہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی، ایران اور پاکستان تعلقات کو مزید مضبوط بنائے گا، ایرانی صدر کے اس دورے میں زراعت، تجارت، توانائی، عوامی رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کا ایجنڈا موجود ہے، پاکستان کے وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان اور ایران نے ورک فورس اور فلم و سنیما میں تعاون کے لئے ایم او یوز پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وفاقی کابینہ نے ایران کیساتھ ایم او یوز کی منظوری دے دی ہے، پاکستان اور ایران ورک فورس کے لئےمفاہمت کی یادداشت پر دستخط کریں گے، دونوں ممالک میں ہنرمند افرادی قوت کے تبادلے کے لئے اقدامات کیے جائیں گے، ایم او یو کے تحت ورکرز کی فلاح و بہبود کے لئے مشترکہ تعاون کو فروغ دیا جائے گا، ایم او یو کے تحت ورکرز ویلفیئر فنڈ کےقیام کا جائزہ لیا جائے گا۔
ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرمجوشی بلند ترین سطح جنرل ضیاء الحق کے دور میں ریکارڈ کی گئی، جب ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ العظمیٰ الامام سید علی خامنہ ای نے بحیثیت صدر ایران اسلام آباد اور لاہور کا اہم دورہ کیا، جس کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان اسٹریٹجک نوعیت کے تعاون کی شروعات ہوئی مگر یہ تعلقات صدر جنرل ضیاء الحق کے حادثے میں ہلاکت کے بعد بتدریج کم ہونا شروع ہوگئے، پاکستان نے سعودی عرب اور امریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صدام حسین کی ایران پر مسلط کردہ جنگ میں تہران کا بھرپور ساتھ دیا اور برادر پروسی ملک کو ایسے میزائلز فراہم کئے جس کی وجہ سے جنگ کے میدان میں ایران کا پَلاّ بھاری ہوگیا اور صدام حسین جنگ بندی پر آمادہ ہوا، اسی دور میں پاکستان نے ایران کیساتھ ایٹمی میدان میں تعاون شروع کیا اور یہ تعاون صدر اسحاق خان کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو علم میں لائے بغیر جاری رکھا گیا، اس سلسلے میں جنرل(ریٹائرڈ) اسلم بیگ نے بھی نمایاں کردار ادا کیا تاہم کویت پر صدام حسین کے حملے کے بعد جنرل بیگ کے نظریات میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی، خاندانی طور پر اہل تشیع لاحقہ رکھنے کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی حکومت کے دوران امریکی خوشنودی کو زیادہ اہمیت دی اور یہی حال نوازشریف کے ادوار میں رہا لہذا پاکستان اور ایران کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کبھی آگے نہیں بڑھ سکا اور یہ وہ شعبہ ہے جو ایران اور پاکستان کے تعلقات میں جوہری تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کو اس وقت توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور جس پر کسی حد تک قابو پانے کیلئے پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنا ناگزیر ہوچکا ہے اور پاکستان کے پاس فوری حل کے طور پر صرف یہی منصوبہ قابل عمل ہے یا پھر پاکستان میں بڑی مقدار میں قدرتی گیس دریافت ہوجائے، موجود حکومت نے اس منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے حوصلے کا اظہار کیا ہے جبکہ امریکی حکام واضح طور پر اس منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں، پاکستان کے موجودہ وزیر توانائی ڈاکٹر مصدق مالک نے اپنے ایک معذرت خواہانہ بیان میں امریکہ سے درخواست کی ہے کہ واشنگٹن پاکستان کے توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو امریکی پابندیوں سے خارج کردے، پاکستان کی حکومتوں کے اسی معذرت خوہانہ رویہ نے پاکستان کو ترقی پذیر ملک سے پسماندہ ملک میں تندیل کردیا ہے، حالانکہ پاکستان کو پائپ لائن اپنی سرحدی حدود میں بچھانی ہے، ایران کے تقریبا تمام صدور نے پاکستان کا دورہ کیا اور اسی طرح پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم نے تہران اور مشہد کا دورہ کیا مگر دونوں ملکوں کے تعلقات میں حقیقی بلندی ایران کے موجودہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوئی ہے جبکہ پاکستان پر اُس وقت امریکی دباؤ حالیہ دور سے زیادہ تھا، امریکہ نے پاکستان کے میزائلز پروگرام میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے بعض کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردیں ہیں یہ اچھا موقع ہے جب پاکستان امریکی دباؤ کو مسترد کرکے ایران سے قدرتی گیس خریدنے کے معاملے کو مکمل کرئے۔
صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان ایران کی جانب سے اسرائیل کی سکیورٹی کو چیلنج کرنے کے بعد کیا جارہا ہے جسے بین الاقوامی سطح پر واچ کیا جائیگا تاہم دونوں ملکوں کی حکومتوں کی سطح پر بے اعتمادی کی فضاء کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، سال کی شروعات میں ایران کی جانب سے پاکستان کی ارضی سالمیت کو چیلنج کیا جانا صدر رئیسی کی حکومت کا بدترین فیصلہ تھا جس کے جواب میں پاکستان نے ایرانی بلوچستان میں حملہ کرکے پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنایا، پاکستان اور ایران کے تعلقات کو منفی سطح پر لانے کیلئے بین الاقوامی قوتیں ہمیشہ سرگرم رہتی ہیں جبکہ بھارت کا کردار تو بدترین دشمن کا ہے، جس نے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے، پاکستان کی توجہ اور ترجیح گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل ہونی چاہیئے جوکہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے اس منصوبے کشروعات 1996ء میں ہوئی تھی، 28 سال کے طویل عرصے گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ پاکستان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے صرف ایران کی سرحدی حدود تک مکمل ہوسکا ہے، پاکستان اپنی سرحدی حدود میں گیس پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کرکے پاکستانی عوام سستی توانائی کے حق تک رسائی کا انتظام کرئے، پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے فروغ میں یوں تو بہت سی رکاوٹیں ہیں لیکن اسمگلنگ سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جس میں بڑے لوگ اور ادارے ملوث ہیں وہ اپنے مفادات کیلئے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت میں رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے جن سے دونوں ملکوں کے متعلقہ حکام آگاہ ہیں، جسے دور کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان مقامی کرنسی میں تجارت کا مکیزنزم جلد بنایا جائے جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا۔