سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 14 ملین غیر فعال بینک اکاؤنٹس میں 97 ارب روپے پڑے ہیں، اسٹیٹ بینک نے غیر فعال اکاؤنٹس کو مستقل طور پر بند کرنے کی مدت کو 10 سال سے بڑھا کر 15 سال کرنے کی تجویز پیش کی، جسے کمیٹی نے منظور کر لیا، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اسلامی بینکوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی بینک 30 فیصد تک سود وصول کر رہے ہیں جبکہ روایتی بینک تقریباً 20 فیصد چارج کر رہے ہیں، کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ انہیں کئی ایسے کیسز موصول ہوئے ہیں جہاں اسلامی بینک غیر معمولی شرح سود وصول کر رہے ہیں، اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کمیٹی کو بتایا کہ فی الحال اسلامی بینکوں کا حصہ صرف 25 فیصد ہے جبکہ روایتی بینکوں کا حصہ 75 فیصد ہے، کمیٹی نے اسلامی بینکاری کے طریقوں میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں پر بھی بات چیت کی، جس پر چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے الزام لگایا کہ اسلامی بینکاری میں منافع کی شرح روایتی بینکاری سے زیادہ ہے، انہوں نے اسٹیٹ بینک سے اسلامی بینکاری کے طریقوں پر تفصیلی بریفنگ طلب کی، اجلاس کا اختتام پر اسلامی بینکاری میں شفافیت اور ریگولیٹری نگرانی کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت کے مطالبے پر ہوا۔
کمیٹی نے ڈیپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن ترمیمی بل 2024ء کا جائزہ لیا اور اسے منظور کرلیا گیا، اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین نے بل پر تفصیلی بریفنگ دی، نئے ترمیم کے تحت جمع کنندگان کو5 لاکھ روپے تک کے رقوم کیلئے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا، جو پہلے کی حد ڈھائی لاکھ روپے سے بڑھا دی گئی ہے، ڈاکٹر عنایت حسین نے بتایا کہ اگرچہ مائیکرو فنانس بینک اس وقت بل میں شامل نہیں ہیں، تاہم مستقبل میں ترمیم کے ذریعے انہیں بھی تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جمع کنندگان کے تحفظ میں اضافے کی وکالت کی ہے، ڈاکٹر عنایت حسین نے انکشاف کیا کہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ کے اراکین کو ہر میٹنگ کے لئے 75 ہزار روپے ملتے ہیں، ڈاکٹر عنایت حسین نے زور دیا کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری عالمی معیارات کے مقابلے میں سخت ضوابط کے مطابق ہے اور نوٹ کیا کہ آئی ایم ایف نے دسمبر تک تجارتی اور مائیکرو فنانس بینکوں کے لئے یکساں ریگولیٹری فریم ورک کی تجویز دی ہے، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے بیرونی ممالک کی مشترکہ سرمایہ کاری کمپنیوں کے حکومتی پیپرز میں سرمایہ کاری پر خدشات کا اظہار کیا اور وزارت خزانہ سے اس مسئلے کو حل کرنے کی اپیل کی، انہوں نے ملکی مارکیٹوں پر بیرونی اثرات سے بچنے کے لئے ایسی سرمایہ کاری پر پابندی کی بھی تجویز دی۔